قائمہ کمیٹی کا سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملے کے واقعہ کی جوڈیشل کمیشن رپورٹ کی سفارشات پر عملد رآمد نہ ہونے پر تشویش کا اظہار

جب تک گورننس ٹھیک نہیں ہو گی معیشت سمیت کوئی چیز ٹھیک نہیں ہو گی ،کوئی ٹیم پاکستان آنے کو تیار نہیں تھی، ارکان کمیٹی

جمعرات 16 مئی 2019 21:20

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 16 مئی2019ء) قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون انصاف نے سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملے کے واقعہ کی جوڈیشل کمیشن رپورٹ کی سفارشات پر عملد رآمد نہ ہونے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئیآئی جی پنجاب سے جواب طلب کر لیا۔جمعرات کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون وانصاف کااجلاس چیئرمین ریاض فتیانہ کی صدارت میں ہوا،اجلاس کے دوران لاہور میں سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملے کے واقعہ کی جوڈیشل کمیشن رپورٹ پیش کی گئی ،چیئرمین کمیٹی نے ایڈیشنل سیکرٹری داخلہ پنجاب سے کہا کہ آپ نے رپورٹ کی صرف فائنڈنگز بھیجی ہیں ،جبکہ اس میں لکھا ہے کہ رپورٹ 106 صفحات پر مشتمل ہیں ،امجد سلیمی کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ اس پوسٹ کے لیئے مس فٹ تھے لیکن وہ بعد میں آئی جی بن گئے ، رپورٹ میں ہر آفیسر کو ڈسکس کیا گیا ہے ،جب تک گورننس ٹھیک نہیں ہو گی معیشت سمیت کوئی چیز ٹھیک نہیں ہو گی ،کوئی ٹیم پاکستان آنے کو تیار نہیں تھی،رکن کمیٹی نوید قمر نے کہاکہ اس رپورٹ کو پڑھنے سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ،اس رپورٹ کے بعد ذمہ داران کو فارغ کر دینا چاہیئے تھا ،اب تک ایکشن کیوں نہیں لیا گیا ،یہ رپورٹ پہلے دن ہی پبلش ہو جانی چاہیئے تھی،رکن کمیٹی شنیلا رتھ نے کہا کہ اس وقت کوئی بھی پولیس افسر وہاں موجود نہیں تھا ،سیکیورٹی پلان صرف کاغذوں پر تھا،جو ذمہ دار تھے ان پر زمہ داری نہیں ڈالی گئی، اس واقعہ کے بعد پنجاب پولیس میں کوئی فرق نہیں آیا،رکن کمیٹی کشور زہرا نے کہا اس معاملے کی آخری تہہ تک جانا چاہیئے، رکن کمیٹی شیر علی ارباب نے کہا کہ اس وقت کے سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن سے پوچھنا چاہیئے، چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ جب رپورٹ پیش ہوئی تو اس وقت آئی جی کون تھی انہوں نے اس رپورٹ پر کیا عملدرآمد کیا ایس پی ماڈل ٹاؤن اس جگہ موجود ہی نہیں تھا ،موجودہ آئی جی پنجاب کو لکھ کر تحفظات کا اظہار کیا جائے اور پوچھا جائے آپ نے اس رپورٹ پر کیا عملدرآمد کیا ہے،اسٹیبلشمنٹ ڈویڑن سے بھی جواب مانگا جائے، اور پوچھا جائے ان افسران کی کتنی پروموشنز ہوئیں ہیں اور کہاں کہاں ٹرانسفر کیا گیا ۔

(جاری ہے)

اجلاس کے دوران سیالکوٹ جیل میں ججز کے قتل کا معاملہ بھی زیر غور آیا،چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ سیالکوٹ جیل کے دورے کے دوران ججز کو یرغمال بنایا گیا تھا ،اس پر کسی فورم نے انکوائری کی تھی اے آئی جی جیل خانہ جات پنجاب نے کمیٹی کو بتایا کہ اس واقعے پرجوڈیشل کمیشن نہیں بنا تھا، اس پر انکوائری ہوئی تھی،رکن کمیٹی نوید قمر نے کہا کہ اتنا بڑا واقعہ ہوا اور کوئی جوڈیشل انکوائری نہیں ہوئی ،کسی گائوں پر پولیس چڑھائی کرتی ہے تو اس پر بھی اس سے زیادہ انکوائری ہوتی ہے، رکن کمیٹی خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ اصل مجرم کو چھپانے کے لیئے جیل خانہ جات کے محکمے کو قربانی کا بکرا بنایا گیا ،عدلیہ جو انصاف فراہم کرتی ہے ان کو خود کو انصاف نہیں ملا،ارکان کمیٹی نے استفسار کیا کہ کیا اس واقعے پر ایف آئی آر ہوئی تھی جس پر اے آئی جی جیل خانہ جات پنجاب نے نفی میں جواب دیا۔

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ رجسٹرار لاہور ہائیکورٹ کو لکھا جائے کہ اس پر جوڈیشری نے کیا ایکشن لیا آئی جی جیل خانہ جات سے پوچھا جائے کہ ذمہ داروں کے خلاف کیا ایکشن لیا گیا ، ایڈیشنل سیکرٹری داخلہ پنجاب بتائیں کہ پوسٹ مارٹم ہوا ہے یا نہیں اگر نہیں ہوا تو کیوں نہیں ہوا ،ایف آئی آر اگر درج نہیں ہوئی تو اس کا کون ذمہ دار ہے۔