پے پال کا پاکستان آنے سے انکار،فری لانسرز پریشان

پاکستان کی فری لانسر کمیونٹی جو دنیا کی تیسری بڑی کمیونٹی ہے پے پال کے پاکستان آنے سے انکار پر مایوس

Usman Khadim Kamboh عثمان خادم کمبوہ ہفتہ 18 مئی 2019 18:21

پے پال کا پاکستان آنے سے انکار،فری لانسرز پریشان
کراچی(اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین۔18مئی2019ء) پیسوں کی آئن لائن منتقلی کرنے والی کمپنی پے پال نے پاکستان آنے سے انکار کر دیا۔ پاکستان کی فری لانسر کمیونٹی جوکہ دنیا کی تیسری بڑی کمیونٹی ہے نے پے پال کی جانب سے پاکستان میں اپنی سہولت متعارف کروانے سے انکار پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ واضح رہے کہ پے پال پوری دنیا کی 190مارکیٹس میںآ ن لائن ادائیگیوں کا نظام چلاتی ہے جس سے رقوم آن لائن طریقے سے منتقل کی جاتی ہیں۔

پاکستان کے فری لانسر اور ای کامرس سے وابستہ افراد طویل عرصے سے مطالبہ کر رہے تھے کہ پے پال کو پاکستان لایا جائے، سابق وزیر خزانہ اسد عمر نے پے پال کو پاکستان لانے کی کوششوں کے لیے اپنے عزم کا اظہار بھی کیا تھا تاہم ان کی کوششیں ضائع ہو گئی ہیں۔ سینیٹ کمیٹی کے اجلاس کے دوران سیکریٹری انفارمیشن نے بتایا ہے کہ پے پال نے پاکستان میں آپریشن کرنے سے انکار اس لیے نہیں کیا کہ اسے پاکستان میں کام کرنے سے مسئلہ ہے بلکہ ان کا داخلی نظام ایسا ہے کہ وہ پاکستان میں اپنی سہولیات متعارف کروانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

(جاری ہے)

یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اگر پے پال پاکستان آتی ہے تو اس سے 2 لاکھ فری لانسرز اور 7 ہزار چھوٹے کاروبار کرنے والے افراد کو بہت زیادہ سہولت ملے گی اس کے علاوہ پاکستان میں ہزاروں ایسے آن لائن کام کرنے والے افراد بھی ہیں جو ابھی رجسٹرڈ نہیں ہیں۔ اس حوالے سے سیکریٹری انفارمیشن نے بتایا ہے کہ پاکستان میں ادائیگی کے کسی بین الاقوامی طریقہ کار کی عدم موجودگی میں فری لانسر اور چھوٹے کاروبار کرنے والوں کو دیگر طریقے ڈھونڈ کر بیرونِ ملک سے رقم حاصل کرنی پڑتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ چھوٹے کاروبار کرنے والے افراد کسی رشتہ دار کی مدد سے بیرونِ ملک اکاوٴنٹ کھلواتے ہیں اور اس میں ادائیگیاں وصول کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومتی نقطہ نظر سے اس نظام میں ایک بڑی خلاء ہے جس میں لوگوں کو اپنی رقم بیرونِ ملک رکھنا پڑتی ہے۔پاکستان میں سہولیات متعارف کروانے میں پے پال کے تحفظات کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ پوائنٹ آف سیل سسٹم نہیں لیا گیااور بین الاقوامی کمپنیاں مثلاً پے پال کسی بھی مارکیٹ میں شامل ہونے سے قبل رقوم کی منتقلی کی تعداد اور بینک اکاوٴنٹس دیکھتی ہیں اور پاکستان میں پی او ایس اور کریڈٹ کارڈز کی رسائی بہت بہتر نہیں ہے۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق اس وقت ملک میں کریڈٹ کارڈز کی مجموعی تعداد 36 لاکھ ہے جبکہ کمرشل بینکس سے جاری کردہ ڈیبٹ کارڈز کا حصہ 52 فیصد یعنی 2 کروڑ 10 لاکھ ہے۔