سینیٹر محمد اسد علی خان جونیجو کی زیر صدارت ایوان بالا کی قائمہ کمیٹی برائے ریلوے کا اجلاس

منگل 21 مئی 2019 18:21

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 21 مئی2019ء) ایوان بالا کی قائمہ کمیٹی برائے ریلوے کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر محمد اسد علی خان جونیجو کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہائوس میں منعقد ہوا۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں گزشتہ اجلاسوں میں دی گئی سفارشات پر عملدرآمد کے علاوہ 25 اپریل2019ء کو سینیٹر محمد عثمان خان کاکٹر کے سینیٹر اجلاس میں اٹھائے گئے سوالات برائے کوئٹہ سے چمن ریلوے بوگیوں اور سٹیشنز پر پانی، بجلی اور دیگر سہولتوں کی عدم فراہمی کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔

سینیٹرمحمد عثمان خان کاکڑ نے کہاکہ کوئٹہ چمن کے درمیان چلنے والی ٹرین کے حوالے سے سوال کیاتھا اور یہ انگریز کے دور سے روٹ ہے اس روٹ سے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ ہورہی تھی اور ریلوے خاصی کو آمدن ہوتی ہے اور صرف تین مسافر بوگیاں ہیں اور ان میں کھڑکیاں کے شیشے، بجلی، پانی نہیں ہوتاہے اور سیٹیں بھی خستہ حال ہیں۔

(جاری ہے)

ہرہفتہ انجن خراب ہوتاہے اور بوگیاں بھی انگریز کے دور کی ہیں۔

ریلوے ا سٹیشنز پر سہولیات نہیں ہیں۔ ریلوے کے حکام مسافروں کو ٹکٹ لینے سے منع کرتے ہیںاور تھوڑے پیسے لے کر سفر کرواتے ہیں۔ چمن سے لوگ سامان لاتے ہیں بیٹھنے کی جگہ نہیں ہوتی ہے۔غریب مریض بھی اس ٹرین کو استعمال کرتے ہیں کم سے کم اس ٹرین پر آٹھ مسافر بوگیاں اور ایک اے سی بوگی لگائیں۔پولیس گارڈ بھی ڈیوٹی نہیں دیتے ہیں۔کرایہ سب سے لیں ریلوے اسٹیشنز پر بنیادی سہولیات کی فراہمی کے علاوہ ان کی تزئین و آرائش بھی عمل میںلائی جائے۔

چمن سے بہت زیادہ سامان کوئٹہ اور دیگر شہروں کو ترسیل ریلوے کے ذریعے ہوتا ہے۔اسٹیشن سے پہلے ویرانوں میں گاڑیوں کو روک کر چیکنگ کی جاتی ہے اور مسافروں کو گھنٹوں خوار ہونا پڑتا ہے۔آئے دن بچے پتھر مار کر بوگیوں کے شیشے توڑ دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سبی سے ہرنائی کے درمیان روٹ بحال کیاجائے اس کے ذریعے سبی سے ہرنائی کوئلہ جاتاتھا۔آمدن والا روٹ ہے سواری بھی ہے اور کارگو بھی ہوتاتھا۔

سیکرٹری ریلوے نے کہا ہے معزز سینیٹر نے جو کہا ہے کہ اس سے اتفاق کرتے ہیں جن سہولیات کاذکر کررہے ہیں یہ دینا ریلوے کی ذمہ داری ہے۔ٹرین کو راستہ میں روکنا کسٹم کے پاس اختیار نہیں ہے وہ اسٹیشن پر یہ چیکنگ کرسکتے ہیں۔سی ای او ریلوے نے کہاکہ کوئٹہ سے چمن ٹرین دن کو چلتی ہے بجلی کامسئلہ تھا وہ حل کررہے ہیں۔ جب بوگیوں کا شیشہ ٹوٹتا ہے تو اس کو تبدیل کر لیا جاتا ہے۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ اس گاڑی کو آوٹ سورس کردیا ہے۔اس گاڑی کے ذریعے سب سے زیادہ اسمگلنگ ہوتی ہے اور خسارے میں بھی ہے۔ چمن سے کوئٹہ روٹ پر پانی کامسئلہ ہے 4سولیٹر پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔انہوں نے کہا کہ بوگیوں کی کمی ہے پرانی بوگیوں کی مرمت کی جارہی ہے اور نئی 220 بوگیاں خریدی جائیں گی۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ریلوے کی حالت خراب ہے بوگیوں کی تعداد بڑھائی جائے اور مسائل کو حل کر کے 15 دنوں میں کمیٹی کو رپورٹ فراہم کی جائے اور ان اسٹیشنز کی تصاویراور فلم بندی کر کے کمیٹی کو فراہم کی جائے۔

سینیٹرمرزا محمد آفریدی نے کہاکہ اسمگلنگ نہیں ہونی چاہیے ریلوے میں اسمگلنگ کو روکا جائے۔ آئی جی ریلوے نے کمیٹی کو بتایا کہ سامان کی تلاشی کرتے ہیں اسلحہ اور منشیات کو روکتے ہیں۔جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہاکہ معاملے کو سینیٹ اجلاس میں اٹھا کر متعلقہ کمیٹی کو ریفر کرایا جائے گا۔ سبی ہرنائی ٹریک سیکورٹی کے وجہ سے خراب ہواتھا اس کو ٹھیک کردیاہے حکومت بلوچستان نے سیکورٹی فراہم کرنے کا کہا تھا مگر 4میٹنگ ہوچکی ہیں ابھی تک مسئلہ حل نہیں ہوا جس دن سیکورٹی فراہم کر دی گئی ایک ماہ کے اندر فعال کردیں گے۔

سیکورٹی کے بغیر ٹرین نہیں چلاسکتے ہیں۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر محمد اسد اللہ خان جونیجو نے کہا کہ گزشتہ اجلاسوں میں دی گئی سفارشات پر عملدرآمد کے حوالے سے وزارت ریلوے نے جوابات فراہم کر دیئے ہیں سوائے گزشتہ کمیٹی اجلاس کے ان کو پڑھ کر اگر اراکین کمیٹی کے کوئی سوال ہیں تو ان کا آئندہ اجلاس میں جائزہ لیا جائے گا۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ مردان میں تین ایکڑ زمین لیز پر دی گئی ہے دکانیں 21سال کیلے لیز پر دی ہیںاورتحصیل مردان میں14.5 ایکڑ ریلوے زمین پر غیر قانونی تجاوزات ہیں۔

قائمہ کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ پشاور اور رسالپور کا دورہ کر کے ریلوے کے معاملات کا تفصیل کاجائزہ لیا جائے گا۔کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹرز مرزا محمد آفریدی، گیان چند، خانزادہ خان، بریگیڈیئر (ر) جان کنتھ ویلمز، لیاقت خان ترکئی، سیمی ایزدی اور محمد عثمان خان کاکٹر کے علاوہ سیکرٹری ریلوے سکند رسلطان راجہ، سی ای او ریلوے محمد آفتاب اکبر، سیکرٹری ریلوے بورڈ فرخ تنویر، آئی جی ریلوے واجد ضیا اور دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔