سکول ٹیچر نے تیسری جماعت کی طالبہ کو رسے سے باندھ کر درخت کے ساتھ الٹا لٹکا دیا

نہ زمین کانپی نہ آسمان گرا،معصوم بچی کے ساتھ سفاک استانی کا انسانیت سوز سلوک

Sajjad Qadir سجاد قادر بدھ 22 مئی 2019 07:21

سکول ٹیچر نے تیسری جماعت کی طالبہ کو رسے سے باندھ کر درخت کے ساتھ الٹا ..
لاہور (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 22 مئی 2019ء)   ایک کے بعد ایک کہانی معصوم بچیوں کے ساتھ ظلم کی سامنے آتی رہتی ہے۔کبھی خیبر پختونخوا تو کبھی پنجاب، آئے روز کسی نہ کسی سرکاری سکول میں معصوم بچیوں کے ساتھ لیڈی ٹیچر کے انسانیت سوز واقعے کی روداد سننے کو ملتی ہے۔ یہ تو وہ چند واقعات ہیں جن کی ویڈیو منظر عام پر آ جاتی اور ان کے خلاف کارروائی بھی ہو جاتی ہے مگر ان سینکڑوں ہزاروں واقعات کا کیا ہوتا ہو گا جو نہ رپورٹ ہوتے ہیں اور نہ منظر عام پر آتے ہیں۔

کبھی مدرسوں میں ڈنڈوں کے ساتھ معصوم بچوں کی پٹائی کی جاتی ہے تو کبھی اسکولوں میں معصوم بچیوں پر بہیمانہ تشدد کیا جاتا ہے۔تبدیلی سرکار بھی اس حوالے سے مناسب اقدامات کرنے میں ناکام نظر آتی ہے۔ سمجھ نہیں آتی کہ پڑھے لکھے ہونے اور خاتون ہونے کے باوجود بھی لیڈی ٹیچر معصوم بچوں پر اس قدر ظلم کرتی نظر آتی ہیں کہ کلیجہ منہ کو آتا ہے۔

(جاری ہے)

گزشتہ دن لاہور کے نواحی گاﺅں شرقپور شریف کے قصبے ملی والا میں ایک لیڈی اسکول ٹیچر نے تیسری کلاس کی بچی نورین رمضان کو رسے سے باندھ کر درخت کے ساتھ الٹا لٹکا دیا۔

نہ صرف الٹا لٹکایا بلکہ اسے شدید تشدد کا نشانہ بھی بنایا۔حد تو یہ ہے کہ اس نے دیگر بچوں کو بھی اس معصوم بچی کی پٹائی کرنے ا ور تشدد کا نشانہ بنانے کا کہا۔ ظلم یہیں نہیں رکتا بلکہ پورے اسکول میں کسی بھی اور ٹیچر نے اس ٹیچر کو یہ ظلم کرنے سے منع نہیں کیا بلکہ ساتھی خاتون ٹیچر اس واقعے کی موبائل پر ویڈیو بنانے میں مصروف رہی اور یہی ویڈیو ان کے جرم کا ثبوت بھی بن گئی۔

حکام نے بروقت نوٹس لیااور تشدد کرنے والی دونوںلیڈی ٹیچر کو گرفتار کرتے ہوئے مقدمہ درج کر لیا۔مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس سے ایسے واقعات رونما ہونا بند ہو جائیں گے؟کیا معصوم بچوں کے ساتھ بہیمانہ تشدد کے واقعات میں کمی آ جائے گی؟ پنجاب حکومت نے ایک عرصے سے مار نہیں پیار کا نعرہ ہر سرکاری سکول کے باہر لکھوا رکھا ہے جبکہ اسکول کے اندر اس نعرے کی خلاف ورزی ہوتی نظر آتی ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت ٹیچرز کے خلاف سخت قانون سازی کرے اور ایسا کام کرنے والوں کو سخت سزا دی جائے تاکہ آئندہ ایسا کوئی واقعہ رونما نہ ہو۔

متعلقہ عنوان :