ایران زیادہ دیر کے لئے آبنائے ہرمز بند نہیں کرسکتا ہے،نئی تحقیق سامنے آ گئی

زیادہ دیر تک آبنائے ہرمز بند کرنے کی صورت میں امریکا ایران پر حملہ بھی کرسکتا ہے ، لندن اسٹرٹیجک انسٹیٹیوٹ

بدھ 22 مئی 2019 22:16

لندن(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 22 مئی2019ء) امریکا اور ایران کے درمیان حالیہ محاذ آرائی کے جلو میں جہاں فریقین ایک دوسرے پر الزامات اور سنگین نتائج کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ وہیں دوسری طرف ایران نے عالمی طاقتوںکے ساتھ کئے گئے معاہدے کی بعض شرائط سے دست بردار ہونے، یورینیم افزودگی کی سطح بڑھانے کے ساتھ ساتھ خلیج کو بحر اومان سے ملانے والی تیل بردار جہازوں کی بین الاقوامی گذرگاہ آبنائے ہرمز کو بند کرنے کی دھمکی دی ہے۔

یہ دھمکی کس حد تک کار گر ہو سکتی ہے اور کیا ایران آبنائے ہرمز کو زیادہ دیر تک بند رکھ سکتا ہی ۔ اسی حوالے سے لندن اسٹرٹیجک انسٹی ٹیوٹ کے مشرق وسطیٰ کے لیے پروگرام کے زیر اہتمام کی جانے والی تحقیق فرانسیسی اخبارمیں شائع کی گئی ۔

(جاری ہے)

اس میں کہا گیا ہے کہ ایران زیادہ دیر تک آبنائے ہٴْرمز بند نہیں رکھ سکتا۔رپورٹ میں کہا گیا کہ آبنائے ہرمز کی زیادہ دیر بند نہ رہنے کی وجوہات میں ایک بڑی وجہ امریکا کی عسکری بالا دستی ہے۔

اس وقت امریکا کا پانچواں بحری بیڑا خلیجی پانیوں میں موجود ہے۔ اس کے بعد ایران کے تیل پرعالمی منڈی تک رسائی پر پابندی ہے۔ ایران کے دو اہم اتحادی بالخصوص چین بھی عالمی منڈی میں تیل کی قیمت میں اضافے کے خدشے کے پیش نظر ایران کی حمایت جاری نہیں رکھ سکے گا۔ماہرین کا کہنا تھا کہ ایران کے لیے امریکا کا پیغام واضح ہے۔ وہ یہ کہ یا ایران اپنا تیل فروخت کرے گا یا اس یا کوئی ایک ملک بھی ایران سے تیل نہ خریدے۔

2011ء اور 2012ء میں ایران پرعاید کی جانے والی پابندیوں کے دوران ایران آبنائے ہرمز میں آبی ٹریفک روکنے میں ناکام رہا ہے۔ایران آبنائے ہٴْرمز اس لیے بھی زیادہ دیر بند نہیںرکھ سکتا کیونکہ ایسا کرنے کی صورت میں ایرانی حکومت خطرے میں پڑ جائے گی۔ ایسی صورت میں امریکا، ایران میں حکومت تبدیل کرنے کے لیے کوئی بھی کارروائی کر سکتا ہے۔ 2001ء میں افغانستان اور 2003ء میں عراق پرحملے کے بعد امریکا علاقائی جنگوں میں الجھ گیا مگر ایرانیوں کو سنہ 1980ء سے 1988ء کے دوران آٹھ سالہ عراق جنگ کا عرصہ یاد ہوگا۔

امریکا، ایران میں موجودہ اقتصادی بحران، خواتین اور شہری آزادیوں پر عاید کی جانے والی پابندیوں کو جواز بنا کر تہران کے خلاف کارروائی کرسکتا ہے۔ فی الحال امریکا کی طرف سے ایران میں سیاسی نظام کی تبدیلی کا کوئی واضح اشارہ سامنے نہیں آیا۔ امریکا کی طرف سے ایرانی رجیم پر اپنے سلوک اور طرز عمل میں تبدیلی پر زور دیا جاتا رہا ہے۔امریکا کی طرف سے ایرانی تیل کی عالمی منڈی تک رسائی پر مکمل پابندی کے بعد اس وقت ایران معاشی طور پر سخت مشکل میں ہے۔

یورپی ملکوں کی سطح پر ہونے والے انٹیلی جنس تحقیقات کے جائزوں کے مطابق امریکا کا اصل ہدف ایران پر اپنی شرائط تسلیم کرانے کے لیے دبائو ڈالنا ہے۔ جہاں تک ایران کی جنگی صلاحیت کا تعلق ہے تو وہ بنیاد پرست عناصر اور پاسداران انقلاب کی لیڈرشپ کے دعووں کے برعکس ہے۔ ایران کے پاس امریکا کا دفاعی اور جنگی میدان میں مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں۔ ایران کے جنگی وسائل بہت محدود ہیں۔تجزیہ نگار کا کہنا تھا کہ ایران میں موجودہ عسکری بحران سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کی دور کی طرح سنہ 2001ء سے 2009ء کی طرح کشیدگی پائی جا رہی ہے۔