Live Updates

ؔ رتو ڈیرو میں ایچ آئی وی ایڈز کی وجہ استعمال شدہ سرنجوں کا دوبارہ استعمال ہوسکتا ہے ، ڈاکٹر ظفر مرزا

پاکستان میں ایچ آئی وی/ایڈز کے جتنے کیسز رپورٹ کیے گئے ہیں وہ اصل تعداد سے کہیں کم ہیں اور تقریبا ڈیڑھ لاکھ سے زائد افراد ایڈز کا شکار ہیں ؂وزیراعظم عمران خان آئندہ 2 ہفتوں میں صحت کے حوالے سے بہت بڑا اعلان کرنے والے ہیں،معاون خصوصی برائے صحت کی پریس کانفرنس

اتوار 26 مئی 2019 20:16

ؔ رتو ڈیرو میں ایچ آئی وی ایڈز کی وجہ استعمال شدہ سرنجوں کا دوبارہ ..
*%اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 26 مئی2019ء) وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے کہا ہے کہ رتو ڈیرو میں ایچ آئی وی ایڈز کی وجہ استعمال شدہ سرنجوں کا دوبارہ استعمال ہوسکتا ہے ، پاکستان میں ایچ آئی وی/ایڈز کے جتنے کیسز رپورٹ کیے گئے ہیں وہ اصل تعداد سے کہیں کم ہیں اور تقریبا ڈیڑھ لاکھ سے زائد افراد ایڈز کا شکار ہیں،وزیراعظم عمران خان آئندہ 2 ہفتوں میں صحت کے حوالے سے بہت بڑا اعلان کرنے والے ہیں۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے کہا کہ رتوڈیرومیں ایچ آئی وی کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ تشویش ناک ہے۔ سندھ حکومت نے لاڑکانہ میں وفاقی حکومت کے ساتھ مل کر 21 ہزار 375 افراد کے خون کے نمونے حاصل کئے۔

(جاری ہے)

جن میں سے 681 میں ایچ آئی وی پازیٹیو کی تصدیق ہوئی ہے۔ سب سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ تصدیق شدہ مریضوں میں 537 بچے ہیں اور ان کی عمریں 2 سے 15 سال تک ہے۔

ڈاکٹر ظفر مرزا نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں اس حد تک ایچ آئی وی ایڈز کی تشخیص ہونا تشویشناک ہے۔ یہ معاملہ اسے اور بھی پراسرار بنا رہا ہے کہ اتنے زیادہ بچوں میں یہ بیماری کیوں ہے۔ ایچ آئی وی ایڈز کاعلاج تو کرلیں گے لیکن یہ کہاں سے آیا یہ پتہ لگانا ضروری ہے، جب تک ہم وجوہات کو نہیں ڈھونڈیں گے یہ مرض مزید پھیلتا جائے گا، اگر ماں کو ایڈز ہو اور وہ بچے کو دودھ پلارہی ہے تو بچے کو بھی ایڈز ہوسکتا ہے لیکن ان بچوں کے والدین ایچ آئی وی نیگیٹیو ہیں۔

استعمال شدہ سرنجوں کا دوبارہ استعمال مرض کے پھیلنے کی وجہ ہوسکتی ہے کیونکہ استعمال شدہ سرنجوں کو دوبارہ پیک کرکے مارکیٹ میں بیچا جارہا ہے۔معاون خصوصی کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت محنت سے مسئلے کو کنٹرول کرنے کی کوشش کررہی ہے، سندھ میں 3 ٹریٹمنٹ سینٹر بنائے جارہے ہیں، عالمی ادارہ صحت سے 50 ہزار کٹس طلب کی ہیں۔ ہم نے فوری طورپر بین الاقوامی ماہرین کی ٹیم بلائی ہے جو آئندہ 2 سے 3 دن میں کراچی پہنچے گی، یہ ٹیم مقامی ڈاکٹرز کے ساتھ مل کر کام کرے گی، عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) اور سینٹر فار ڈیسیز کنٹرول (سی ڈی سی) کے ماہرین پر مشتمل ٹیم ایچ آئی وی/ایڈز میں اضافے کی وجوہات کی تحقیق کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ ماہرین ہمارے مقامی ڈاکٹروں اور دیگر عملے کے ساتھ ایچ آئی وی میں اضافے کی تحقیق کریں گے تاکہ ہمیں اس کی وجوہات کا صحیح اندازہ ہوسکے اور اسے مزید پھیلنے سے روکا جاسکے۔معاون خصوصی نے بتایا کہ وفاقی حکومت، صوبائی حکومت کے ساتھ مکمل تعاون کررہی ہے اور جتنے بھی بالغ افراد میں ایڈز کی تشخیص ہوئی ہے انہیں تمام ادویات پہنچارہے ہیں۔

ڈاکٹر ظفر مرزا نے کہا کہ بچوں کے لیے بھی ادویات فراہم کی جارہی ہیں اور مزید منگوائی جارہی ہیں کیونکہ یہ ناکافی ہے، عام طور پر ہمارے یہاں بچے اس بیماری سے متاثر نہیں ہوتے۔انہوں نے کہا کہ اسکریننگ کے لیے 50 ہزار کٹس کا آرڈر دیا ہے وہ بھی جلد پاکستان پہنچ جائیں گی اور اس کے علاوہ سندھ میں ایڈز کے مستند علاج کے لیے 3 ٹریٹمنٹ سینٹرز قائم کیے جارہے ہیں۔

ڈاکٹر ظفر مرزا نے کہا کہ جب کسی بچے کو ایچ آئی وی کی تشخیص ہوتی ہے تو اسے تمام عمر ادویات کے سہارے گزارنی پڑتی ہے، جو انتہائی تشویشناک صورتحال ہے۔معاون خصوصی کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے صوبائی حکومت کو طویل المدتی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے جس میں وفاق کی جانب سے بھر پور تعاون کیا جائے گا۔ان کا کہنا تھا کہ میرا خیال ہے کہ پاکستان میں ایچ آئی وی/ایڈز کے جتنے کیسز رپورٹ کیے گئے ہیں وہ پاکستان میں اس مرض سے متاثرہ افراد کی تعداد سے کہیں کم ہیں۔

ڈاکٹر ظفر مرزا نے کہا کہ اس وقت ہمارا اندازہ ہے کہ تقریبا ایک لاکھ 63 ہزار افراد اس مرض کا شکار ہیں لیکن ان میں سے صرف 25 ہزار افراد قومی اور صوبائی ایچ آئی وی ایڈز پروگرامز کے ساتھ رجسٹر ہیں جن میں سے 16 ہزار افراد مستقل دوائی لیتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہمارے تخمینہ سے بہت کم لوگ علاج کرواتے ہیں، اس سے پہلے بھی وقتا فوقتا ایڈز کام ہوتا رہا ہے، 2016 میں ڈائیلائسز کے 50 مریضوں میں تشخیص ہوئی تھی۔

ڈاکٹر ظفر مرزا نے کہا کہ 2008 میں پنجاب میں گجرات کے قریب ایساہی ہوا تھا لیکن ہمارے معاشرے میں لوگ اس مرض کو بدنامی کا باعث سمجھتے ہیں اور اس پر بات کرنے کو تیار نہیں ہیں، اس حوالے سے آگاہی کی ضرورت ہے۔ڈاکٹر ظفر مرزا نے کہا کہ 23 مئی کو صوبائی وزیر صحت کے ہمراہ لاڑکانہ کا دورہ کیا تھا، رتوڈیرو میں اب تک 21 ہزار 375 افراد کی اسکریننگ کی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ کل تک 681 افراد میں ایڈز کی تشخیص ہوئی جن میں سے 537 بچوں میں ایچ آئی وی کی تصدیق ہوئی۔معاون خصوصی نے کہا کہ خدشہ ہے بچے استعمال شدہ سرنجوں سے اس مرض میں مبتلا ہوئے جبکہ ایچ آئی وی سے متاثرہ بچوں کے والدین کے ٹیسٹ منفی آئے۔انہوں نے کہا کہ استعمال شدہ سرنجوں کا دوبارہ استعمال مرض پھیلنے کی بڑی وجہ ہے، استعمال شدہ سرنجوں، خون کی منتقلی، انفیکشن پر قابو پانے کے انتظامات نہ ہونے جیسے مسائل سے متعلق اقدامات کیے جائیں گے۔

ڈاکٹر ظفر مرزا نے کہا کہ سروے کے مطابق پاکستان میں ایچ آئی وی ایڈز کیایک لاکھ 63 ہزارمریض ہیں جب کہ 25 ہزار مریض نیشنل پروگرام کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں، پاکستان میں ایڈز کیسز کی اصل تعداد سامنے آنے والے کیسز سے کہیں زیادہ ہے۔معاون خصوصی برائے صحت نے مزید کہا کہ سرکاری اسپتالوں پر مریضوں کا بوجھ ضرورت سے بہت زیادہ ہے، تمام سرکاری اسپتالوں میں ایم ٹی آئی ایکٹ کا نفاذ ناگزیر ہے، ایکٹ کے تحت سرکاری اسپتالوں کی حالت زاربہتر بنائی جا سکتی ہے، پرائمری ہیلتھ کیئر کو ٹھیک کرنے تک اسپتالوں پر بوجھ قائم رہے گا۔ وزیراعظم کے ہمراہ مختلف اسپتالوں کے دورے کیے، وزیراعظم عمران خان آئندہ 2 ہفتوں میں صحت کے حوالے سے بہت بڑا اعلان کرنے والے ہیں۔
Live عمران خان سے متعلق تازہ ترین معلومات