افغانستان میں امن کے لیے قبضے کا خاتمہ لازمی ہے،نائب طالبان امیر

اس ضمن میں سب سے بڑی رکاوٹ غیر ملکی افواج کی افغانستان میں موجودگی ہے،خطاب

بدھ 29 مئی 2019 19:10

ماسکو(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 29 مئی2019ء) افغان طالبان کے نائب امیر ملا عبدالغنی برادر نے کہا ہے کہ امارات اسلامیہ امن کی خواہش مند ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ قیام امن کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کیا جائے،اس ضمن میں سب سے بڑی رکاوٹ غیر ملکی افواج کی افغانستان میں موجودگی ہے۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق انہوں نے یہ بات روس کے دارالحکومت ماسکو میں منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔

تقریب کا انعقاد روس اور افغانستان کے سفارتی تعلقات کے 100 سال مکمل ہونے کے حوالے سے کیا گیا تھا۔ملا عبدالغنی برادر نے کہا کہ امارات اسلامیہ قیام امن کی آرزو مند اور خواہش مند ہے مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے اس راستے میں حائل تمام رکاوٹیں دور کی جائیں۔

(جاری ہے)

رکاوٹوں کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اس کے معنی یہ ہوں گے کہ افغانستان پر سے ’غیر ملکی‘ قبضہ ختم کیا جائے۔

افغان طالبان وفد کے ایک رکن لطیف خان متقی نے اس موقع پر اپنے خطاب میں کہا کہ امارات اسلامیہ اپنے ہمسایہ ممالک سے اچھے دوستانہ تعلقات رکھنے کی خواہش مند ہے لیکن وہ اس بات کی اجازت ہرگز نہیں دے گی کہ اس کی سرزمین کو کسی دوسرے کے خلاف استعمال کیا جائے۔افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی نے اپنے خطاب میں کہا کہ تقریب کا انعقاد اس بات کا عکاس ہے کہ افغان روس کے ساتھ دوستانہ تعلقات کے خواہش مند ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم افغانی اس بات پر روس کے شکر گزار ہیں کہ اس نے افغان امن بات چیت کے لیے میزبانی کا فریضہ سرانجام دیا۔انہوں نے روس اور امریکہ سے کہا کہ وہ افغانستان میں قیام امن کے لیے اپنا کردار ادا کریں تاکہ وہاں استحکام آئے اور حقیقی معنوں میں امن قائم ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ متحارب فریقین کی اعلیٰ قیادت بات چیت کے لیے ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہے۔

سابق صدر حامد کرزئی نے اپنے خطاب میں کہا کہ افغانستان کو قوی امید ہے کہ روس آزاد اور خودمختارحیثیت سے افغانستان میں قیام امن کے لیے اپنا کردار ادا کرے گا۔ انہوں نے توقع ظاہر کی کہ قیام امن میں امریکہ، چین اور جرمنی سمیت دیگر تمام متعلقہ ممالک بھی اپنا اپنا مثبت کردار ادا کریں گے۔روس کے وزیرخارجہ سرگئی لیورو نے اپنے خطاب میں واضح طور پر کہا کہ مسئلہ افغانستان فوجی کارروائی کے ذریعے حل نہیں ہوسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان کے مسئلے کے حل کے لیے ہمیں صرف اور صرف سفارتکاری اور سیاست پہ انحصار کرنا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ ہم اس تجویز کے حامی ہیں کہ غیر ملکی افواج کو افغانستان سے نکل جانا چاہیے تاکہ افغانستان میں قیام پذیر مختلف الخیال اور نسل کے افراد آپس میں مل بیٹھ کر اس بات کو یقینی بنائیں کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ پرامن طریقے سے کیسے رہ سکتے ہیں۔

جمعیت اسلامی کے سربراہ عطا محمد نور نے اپنے خطاب میں کہا کہ روس کی کوششیں قیام امن کے لیے قابل قدر و قابل تعریف ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر افغان متحد و یکجا ہو جائیں تو انہیں غیر ملکی افواج کی اپنی سرزمین پر کوئی ضرورت نہیں ہے۔عطا محمد نور نے عیدالفطر کے موقع پر فریقین کی جانب سے سیز فائرکرنے کی بھی تجویز پیش کی۔ تقریب سے دیگر مقررین نے بھی خطاب کیا۔عالمی خبررساں اداروں کے مطابق روس کے دارالحکومت ماسکو میں قیام امن کے حوالے سے افغان طالبان، افغانستان کے سیاستدانوں اوردیگر اہم متعلقہ افراد کے درمیان اعلیٰ سطحی ملاقاتیں ہوئی ہیں۔روس اس سے قبل بھی افغان سیاست دانوں اور طالبان کے درمیان ملاقاتوں اور غیر رسمی مشاورتی اجلاسوں کی میزبانی کرچکا ہے۔