Live Updates

مشکل معاشی حالات کے باوجود حکومت نے متوازن بجٹ پیش کیا ہے

معاشرہ کے غریب طبقات کیلئے بجٹ کو 100 ارب روپے سے بڑھا کر 191 ارب روپے، ترقیاتی بجٹ 550 ارب روپے سے بڑھا کر 950 ارب روپے کیا گیا ہے، وزیراعظم کے مشیر برائے خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کی پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس

بدھ 12 جون 2019 16:25

مشکل معاشی حالات کے باوجود حکومت نے متوازن بجٹ پیش کیا ہے
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 12 جون2019ء) وزیراعظم کے مشیر برائے خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا ہے کہ مشکل معاشی حالات کے باوجود حکومت نے متوازن بجٹ پیش کیا ہے، معاشرہ کے غریب طبقات کیلئے بجٹ کو 100 ارب روپے سے بڑھا کر 191 ارب روپے، ترقیاتی بجٹ 550 ارب روپے سے بڑھا کر 950 ارب روپے کیا گیا ہے، خیبرپختونخوا میں ضم ہونے والے قبائلی اضلاع ، کم ترقی یافتہ علاقوں پر خصوصی توجہ دے رہے ہیں، برآمدات پر کوئی ٹیکس نہیں ہو گا، برآمدی شعبہ کو بجلی و گیس سمیت دیگر سہولیات کی فراہمی میں معاونت کریں گے، خام مال کی درآمد پر ڈیوٹی ختم کر دی گئی ہے، مہنگائی کم کرنے کیلئے اقدامات کئے جا رہے ہیں، ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ مسلح افواج نے اپنے بجٹ میں اضافہ نہیں مانگا، بجٹ میں 2900 ارب روپے ماضی کے قرضوں کا سود ادا کرنے کیلئے رکھے گئے ہیں، 300 یونٹس سے کم استعمال کرنے والے صارف کیلئے بجلی کی قیمت میں اضافہ نہیں ہو گا، اب کوئی بھی شخص کمپیوٹر پر صرف 6 منٹ میں فائلر بن سکتا ہے۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار وزیراعظم کے مشیر برائے خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے بدھ کو یہاں پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس سے خطاب میںکیا۔ انہوں نے کہا کہ کل پاکستان تحریک انصاف کی جمہوری حکومت نے پہلا بجٹ پیش کیا۔ اس کے بارے میں آپ کے سوالات کے جواب اور وضاحتیں دی جائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ بنیادی طور پر بجٹ ایسے ماحول میں پیش کیا گیا جب ملک کو معاشی چیلنجز درپیش ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ ہم اقتصادی مشکل میں کیوں ہیں اور ہمیں یہ بھی سوچنا ہو گا کہ ہم اس صورتحال سے کیسے نکلیں اور عوام کی خواہشات اور امنگوں کو پورا کر سکیں۔ انہوں نے کہا کہ جب حکومت اقتدار میں آئی تو جو معیشت ہمیں ورثے میں ملی اس کی صورتحال آپ کے سامنے پیش کروں گا۔ ہم پر31 ہزار ارب روپے قرض تھا، ایف بی آر 4 ہزار ارب ٹیکس وصول کرتا ہے تو اس میں سے 2 ہزار ارب روپے سے زائد سابق حکومتوں کے ادوار میں لئے گئے قرضوں پر سود کی ادائیگی میں صرف ہو جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ صوبوں کو 60 فیصد ملتا ہے تو پہلے دن سے ہی وفاقی حکومت خسارے میں ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ فوجی، سول اور ترقیاتی اخراجات بھی ہیں جو ہمیں قرض لے کر پورا کرنا پڑتے ہیں۔ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ قرض اس حکومت نے نہیں لئے بلکہ ورثے میں ملے ہیں اور ہماری ذمہ داری ہے کہ ان سے نمٹیں۔ یہ جائز نہ ہو گا کہ ایک جانب ہم معاشی مسائل سے نمٹنے کی کوشش کریں اور دوسری جانب ہم پر یہ تنقید کی جائے کہ ہم ماضی کے قرضوں پر سود کی ادائیگی کیلئے قرض کیوں لے رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سیاست کو حقائق سے علیحدہ رکھنا چاہئے اور ہمیں حقائق پر اختلاف نہیں کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ ملکی معیشت کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ملک پر 100 ارب ڈالر کے قریب غیر ملکی قرضے بھی ہیں جو ڈالر ہی میں ادا ہوں گے۔ پانچ سال سے زائد عرصہ کے دوران ہماری برآمدات میں صفر فیصد اضافہ ہوا جبکہ درآمدات مسلسل بڑھ رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا تجارتی خسارہ 40 ارب ڈالر تھا، اس تناظر میں ایک جانب غیر ملکی ادائیگیوں کا دبائو، قرضوں کا حجم اور مسائل موجود ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بجٹ میں تین، چار اہم چیزوں پر خصوصی توجہ دی گئی ہے اور یہ بات آپ کے سامنے ہے کہ حکومت نے اپنے دوست ممالک سے 9.2 ارب ڈالر حاصل کئے، اس کے علاوہ مؤخر ادائیگی پر 4.5 ارب ڈالر کے تیل کی درآمد کا انتظام بھی کیا جس سے قومی خزانہ پر ادائیگیوں کے دبائو میں کچھ کمی آئی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے پرتعیش اشیاء کی درآمدات پر ڈیوٹی لگائی ہے تاکہ درآمدات کم ہو سکیں۔

اس کے علاوہ برآمدات پر مراعات دیں تاکہ یہ بڑھ سکیں۔ ملک کے مالیاتی خسارہ کے بارے میں مشیر خزانہ نے کہا کہ حکومت نے اخراجات اور آمدنی میں توازن کیلئے ٹیکس ریونیو کا مشکل ہدف مقرر کیا ہے، امیر لوگوں کو اور ملک کے ساتھ مخلص ہر شہری کو ٹیکس دینا ہو گا، پاکستان کی ٹیکس کی آمدنی کی شرح 11، 12 فیصد ہے جو دنیا کی کم ترین شرح ہے، جو قابل قبول نہیں ہے،ہمارے خطہ کے دیگر ممالک میں بھی یہ شرح زیادہ ہے۔

حکومت ٹیکس کے دائرہ کار میں اضافہ کرے گی اور اگر اس سے کچھ لوگ ناراض ہوتے ہیں تو ہو جائیں، ہم اس کیلئے تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے اخراجات کی کمی کا وعدہ کیا تھا جس پر عمل کیا جا رہا ہے اور اخراجات میں کمی کرکے حکومت نے عوام کو پیغام دیا ہے کہ ہم پہلے اپنے اخراجات کم کریں گے اور ہم قربانی کیلئے تیار ہیں۔ سویلین حکومت کے اخراجات میں واضح کمی کی گئی ہے، گذشتہ سال کے مقابلہ میں سول اخراجات کو 468 ارب روپے سے 431 ارب روپے تک کم کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مہنگائی سے قیمتیں بڑھتی ہیں لیکن ان کو کم کرنے کیلئے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ مسلح افواج نے اپنے بجٹ میں اضافہ نہیں مانگا اور رواں مالی سال میں یہ بجٹ 1150 ارب روپے تھا اس کو آئندہ مالی سال کیلئے بھی اسی سطح پر منجمد کر دیا گیا ہے اور اس میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا۔ مشیر خزانہ نے کہا کہ یہ ایک اچھا پیغام ہے جو دنیا اور ملک کے عوام کو دیا گیا ہے، قومی قیادت متحد ہے کہ ہم حکومتی اخراجات پر قابو پائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے ان قرضوں کی ادائیگی کرنی ہے جو ماضی کی حکومتوں نے حاصل کئے تھے کیونکہ ہمارا ملک ڈیفالٹ نہیں کر سکتا۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں 2900 ارب روپے ماضی کے قرضوں کا سود ادا کرنے کیلئے رکھے گئے ہیں، فوج کو 1150 ارب روپے دیئے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ یہ چند بڑے حقائق اخراجات کے بارے میں تھے جو آپ کے سامنے پیش کئے لیکن اس کے باوجود ہماری معاشی صورتحال ایسی ہے اور ہم نے عزم کیا ہے کہ ہم اس پر سمجھوتہ نہیں کریں گے۔

مشیر خزانہ نے کہا کہ مشکل معاشی حالات کے باوجود حکومت نے تین، چار مختلف شعبوں میں بجٹ کو بڑھایا ہے، ہم نے ملک کے زیادہ کمزور طبقہ، کم آمدنی والے لوگوں، بیوائوں، یتیموں اور غریب خواتین وغیرہ پر توجہ دی ہے تاکہ وہ یہ نہ سمجھیں کہ ہم انہیں بھلا چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سماجی تحفظ کے مختلف پروگراموں کا بجٹ 100 ارب سے 191 ارب روپے تک بڑھایا ہے۔

حکومت عوام کو ہیلتھ کارڈز، انشورنس، مفت علاج، کھانے پینے کی چیزیں، راشن کارڈز وغیرہ فراہم کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے ان طبقات کے تحفظ کیلئے بجلی کی قیمت میں اضافہ پر سبسڈی بھی دینے کا فیصلہ کیا ہے اور جو صارف 300 یونٹس سے کم بجلی استعمال کرے گا اس کو مراعات دیں گے اور ان کیلئے بجلی کی قیمت میں اضافہ نہیں ہو گا۔ مشیر خزانہ نے کہا کہ اس حوالہ سے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں 216 ارب روپے رکھے گئے ہیں تاکہ بجلی کے چھوٹے صارفین کو قیمتیں بڑھنے کی تکلیف سے بچایا جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ تیسرا اہم شعبہ ترقیاتی بجٹ ہے جس سے روزگار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں، بنیادی ڈھانچہ کی ترقی ہوتی ہے اور ملک کی معاشی ترقی میں اضافہ ہوتا ہے، اس مد میں رواں مالی سال میں 550 ارب روپے خرچ ہوئے ہیں جبکہ آئندہ مالی سال کیلئے 950 ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ رکھا جا رہا ہے جس سے بھاشا، مہمند ڈیمز، داسو ہائیڈل پاور پراجیکٹ، سڑکوں کی تعمیر، بلوچستان، کراچی پیکیجز اور فاٹا وغیرہ کے مختلف ترقیاتی منصوبے مکمل کئے جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ ملک کے زیادہ غریب علاقوں اور خصوصاً قبائلی اور بلوچستان کے علاقوں پر بھی آئندہ بجٹ میں خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ فاٹا کے خیبرپختونخوا میں ضم ہونے والے اضلاع کے حوالہ سے حکومت نے جو فیصلہ کیا اور اس پر عملدرآمد بھی کیا، ان اضلاع کی ترقی کیلئے 152 ارب روپے رکھے جا رہے ہیں تاکہ ان کو ترقی دی جا سکے، یہ حکومت کا ایک اور اہم اقدام تھا۔

انہوں نے کہا کہ چوتھی اہم چیز یہ ہے کہ حکومت کی کم آمدنی کے باوجود نجی شعبہ کی مدد کیلئے بجلی، گیس سمیت دیگر مراعات دی جا رہی ہیں۔ مشیر خزانہ نے کہا کہ اس کے علاوہ حکومت نے 5500 ارب روپے ٹیکس وصولیوں کا ہدف مقرر کیا ہے، سوال یہ ہے کہ یہ ٹیکس کہاں سے وصول کیا جائے گا، ہماری کوشش کیا ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ چیئرمین ایف بی آر یہاں موجود ہیں جو اس حوالہ سے تفصیلات سے آگاہ کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ ایک بڑا ایریا ہے جہاں سے ہم ٹیکس وصول کرنا چاہتے ہیں، وہ برآمدی شعبہ کی مقامی سیلز ہیں۔ برآمدات پر زیرو ریٹنگ ہے کوئی ٹیکس نہیں، یہ نظام برقرار رہے گا لیکن اگر آپ برآمدات کر رہے ہیں اور مصنوعات ملک بھی فروخت کر رہے ہیں تو باقی لوگوں کی طرح آپ بھی ٹیکس دیں گے لیکن برآمدات پر کوئی ٹیکس نہیں ہو گا۔ برآمدی شعبہ پر ٹیکسز کے حوالہ سے کوئی تبدیلی نہیں کی گئی بلکہ ہم برآمد کنندگان کو مزید معاونت فراہم کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ ہماری ڈومیسٹک مارکیٹ میں ٹیکسٹائلز کی سیلز کا اندازہ تقریباً 1200 ارب روپے ہے جس پر صرف 6 سے 8 ارب روپے ٹیکس وصول ہوتا ہے جو ناقابل قبول ہے۔ انہوں نے کہا کہ آپ کو حق ہے کہ آپ جائز طریقہ سے پیسہ کمائیں جس سے ہم خوش ہوں گے لیکن 1200 ارب روپے کی سیلز پر 6 تا 8 ارب روپے ٹیکس دیں تو یہ ملک و قوم کیلئے اچھا نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ آپ کو قومی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے اپنی فروخت پر ٹیکس ادا کرنا چاہئے۔

مشیر خزانہ نے کہا کہ برآمدات پر ریفنڈز کے حوالہ سے تنقید کی جاتی ہے کہ اس میں بڑی دقت ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس میں بہتری کی بہت گنجائش موجود ہے اور میں وعدہ کرتا ہوں کہ ہم ریفنڈز کی بہتری کے حوالہ سے چین اور بنگلہ دیش کے ماڈل اپنائیں گے اور ان کی ادائیگیوں کا وقت کم کریں گے، ریفنڈز کی ادائیگی بذریعہ بینک کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ریفنڈز کے مسائل کے خاتمہ کیلئے ہم نے کاروباری برادری سے بھی تجاویز مانگی ہیں جن پر عمل کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ دوسری جانب ٹیکس میں بہتری کیلئے سیلز ٹیکس بھی اہم ہے، ملک میں تیار ہونے والی واشنگ مشینز، ٹائرز، اے سیز، پینٹس وغیرہ پر سیلز ٹیکس عائد ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ مینوفیکچرنگ کے موقع پر ہی ان مصنوعات پر سٹیکرز کی قیمت کی مناسبت سے سیلز ٹیکس وصول کیا جائے تو ہماری ٹیکس وصولیاں بڑھیں گی اور ہیرا پھیری بھی کم ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکس کے نظام کے حوالہ سے تیسری اہم چیز فائلرز اور نان فائلرز کا نظام ہے جس کے بارے میں چیئرمین ایف بی آر وضاحت کریں گے، فائلر اور نان فائلرز کے نظام کو ختم کیا جا رہا ہے، اگر کوئی نان فائلر گاڑی یا جائیداد خریدے گا تو اس کو فائلر بننا پڑے گا جس پر 45 دن میں عمل کرنا ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ اگر کوئی شخص 20 لاکھ کی گاڑی خریدتا ہے تو اس کو اپنی آمدنی کا ذریعہ بتانا ہو گا، اس سے بھی اچھے نتائج برآمد ہوں گے اور ٹیکس کے دائرہ کار میں بھی اضافہ ہو گا جس سے پہلے سے موجود ٹیکس دہندگان پر بوجھ بھی کم ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ ہم فائلنگ کے طریقہ کار میں آسانیاں پیدا کر رہے ہیں اور اب کوئی بھی شخص کمپیوٹر پر صرف 6 منٹ میں فائلر بن سکتا ہے اس کیلئے کسی کے پاس جانے کی ضرورت نہیں ہو گی۔

مشیر خزانہ نے کہا کہ چوتھی اہم چیز ٹیرفس کا نظام ہے، درآمدات پر ٹیکسز کی وصولیوں کے حوالہ سے 1655 لائنز ہیں جن میں مختلف مصنوعات شامل ہیں اور ان کی تعداد 50 ہزار تا ایک لاکھ بھی ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ قومی صنعت کیلئے ایسا خام مال جو ملک میں دستیاب یا پیدا نہ ہو اس پر کسٹم ڈیوٹی صفر کر دی گئی ہے تاکہ ہماری صنعت اگر خام مال درآمد کرے تو اس کو آسانی ہو اور اس کے پیداواری اخراجات بھی کم ہوں۔

انہوں نے کہا کہ تیار اور پرتعیش اشیاء کی درآمد پر ٹیکس میں 4 فیصد اضافہ کیا ہے کیونکہ اگر امیر لوگ فرانس، برطانیہ یا کسی اور ملک کی مصنوعات استعمال کرنا چاہتے ہیں تو وہ اس پر ٹیکس دیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے مشکل معاشی حالات کے باوجود سول ملازمین کی بنیادی تنخواہوں پر گریڈ ایک تا 16 تک 10 فیصد، گریڈ 17 تا 20 تک 5 فیصد ایڈہاک ریلیف دیا ہے جبکہ گریڈ 21 اور 22 کے ملازمین کی تنخواہوں میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ دوسری جانب وزراء اور کابینہ اراکین کی تنخواہوں میں ملکی تاریخ میں پہلی 10 فیصد کمی کی گئی ہے، تنخواہوں میں اضافہ کا سلسلہ مسلح افواج کا بھی سول ملازمین کی طرح ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ تنخواہوں پر عائد انکم ٹیکس کی شرح میں تھوڑا بہت ردوبدل کیا گیا ہے۔
Live پاکستان تحریک انصاف سے متعلق تازہ ترین معلومات