سینیٹر محمد عثمان خان کاکڑ کی زیر صدارت ایوان بالا کی فنکشنل کمیٹی برائے کم ترقی یافتہ علاقہ جات کے مسائل کا اجلاس

جمعرات 13 جون 2019 17:47

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 13 جون2019ء) ایوان بالا کی فنکشنل کمیٹی برائے کم ترقی یافتہ علاقہ جات کے مسائل کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر محمد عثمان خان کاکڑ کی زیر صدارت ادارہ برائے پارلیمانی خدمات کے کانفرنس ہال میں منعقد ہوا۔ فنکشنل کمیٹی کے اجلاس میں ادارہ برائے فروغ قومی زبان اوراکادمی ادبیات کی کارکردگی اور خاص طور پسماندہ علاقوں بشمول فاٹا میں اٹھائے گئے اقدامات کے علاوہ ان اداروں کے مستقل اور ایڈہاک ملازمین کی تفصیلات کا جائزہ لیا گیا۔

سیکرٹری قومی تاریخ و ادبی ورثہ نے کمیٹی کو بتایا کہ ادارہ برائے فروغ قومی زبان کا قیام 1979ء میں عمل میں آیا جس کا بنیادی مقصد قومی زبان کے نفاذ، ترویج کیلئے متعلقہ مواد تیار کرنا تھا۔

(جاری ہے)

پاکستان کی قومی زبان کی حیثیت سے اردو کو فروغ دینے کے ذرائع و سائل پر غور کرنا اور نفاذ کے سلسلے میں تمام ضروری انتظامات کرنا اور سرکاری سطح پر قومی زبان کے جلد از جلد نفاذ کیلئے وفاقی حکومت کو سفارشات پیش کرنا تھا۔

ادارے کا صدر دفتر اسلام آباد جبکہ 5 ذیلی دفاتر کراچی، سکھر، کوئٹہ، پشاور اور لاہور میں 2001ء سے کام کر رہے ہیں۔ 1973ء کے آئین کے مطابق 15 سال میں اردو زبان کو انگریری کی جگہ سرکاری زبان بنانا تھا مگر ابھی تک عملدرآمد نہیں ہو سکا۔ ڈی جی افتخار عارف فروغ قومی زبان نے کمیٹی کو بتایا کہ ادارے نے مختلف موضوعات کی کتابوں کی تیاری پر زور دیا اور ادارے نے اس حوالے سے مختلف بین الاقوامی 7 سو کتابیں بشمول لغات، فراہنگ، تھیسارس ترتیب دینے کے بعد شائع کیے۔

تقریباً 7 ہزار صفحات کے مختلف دستاویزات کے تراجم کئے۔ سرکاری افسران کیلئے اردو کے استعمال کے تراجم کئے گئے۔ دنیا کی عظیم کتابوں کے پاکستانی زبانوں میں تراجم کئے اور نصاب کی ضرورتوں کے مطابق بھی تجاویز تیار کی گئیں۔ ادارے نے ملک میں قائم 40 جامعات کیلئے بھی کتابیں شائع کی ہیں، سائنس کی100 کتابوں کا اردو میں ترجمہ کرایا اور پاکستان کی تمام زبانوں کی تاریخ بھی مرتب کی ہے جس پر چیئرمین کمیٹی سینیٹر محمد عثمان خان کاکڑ نے کہا کہ اس ملک اور اس میں بسنے والی قوموں کو جوڑنے کیلئے بھی اس ادارے کو کردار اداکرنا چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ دنیا کے 60 ممالک میں فیڈریشنز قائم ہیں جن میں مختلف قومیں آباد ہیں اور وہ سب ایک آئین کے تحت رہ رہے ہیں۔یورپ ہمارے ملک سے 200 سال آگے ہے مگر ان ممالک میں بھی زبانوں کے حوالے سے مسائل موجو دہیں۔ پاکستان دنیا کا واحد ملک جہاں تاریخ، قومیت، تہذیب و تمدن، ثقافت اور زبانوں کو اہمیت نہیں دی جاتی۔ پاکستان میں ایک قوم نہیں بے شمارقومیں بستی ہیں جن کی اپنی زبان،شناخت، تہذیب اور تاریخ ہے۔

چیئرمین کمیٹی نے ہدایت کی کہ ملک کی بڑی زبانیں پشتو، بلوچی، سندھی، پنجابی،سرائیکی، بروہی و دیگر کو فروغ دینے کیلئے اقدامات اٹھائے جائیں، کسی زبان سے نفرت نہیں کرنی چاہئے، دنیا میں تقریباً 5 ہزار زبانیں بولی جاتی ہیں، پاکستان میں وہ زبانیں جو ختم ہونے کے قریب ہیں ان کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔ملک کے دانشوروں، ادیبوں اور شاعروں کی کتابوں کے بڑی زبانوں میں تراجم کرائے جائیں اور ان کے فروغ کیلئے ایک کمیٹی بنائی جائے جس میں ان زبانوں کے سکالرز، دانشوروں اور مفکروں کو شامل کیا اور جو بین الاقوامی 7 سو کتابیں اور 7 ہزار صفحات کے تراجم کئے گئے ہیں ان کے ملک کی بڑی زبانوں میں تراجم کیے جائیں۔

اکادمی ادبیات پاکستان کے چیئرمین نے کمیٹی کو بتایا کہ مختلف زبانوں کے فروغ کیلئے وفاقی حکومت فنڈ فراہم کر رہی ہے۔ ادارہ اکادمی ادبیات نے صوفی شاعروں کے اردو میں تراجم بھی کرائے ہیں اور علامہ اقبال کی تمام کتابوں کے تراجم کئے گئے ہیں اور تمام زبانوں کے بڑے شاعروں اور ادبیوں کیلئے وظائف بھی فراہم کئے جاتے ہیں۔ یہ ادارہ 1976ء میں قائم ہوا تھا۔

جس کا بنیادی مقصد ادبیوں اور لٹریچر کا فروغ تھا، اس ادارے نے 6 سو کے قریب کتابیں شائع کی ہیں، بچوں کیلئے ادبیات اطفال بھی شروع کیا گیا ہے۔ اکیڈمی کا ایک نیوز لیٹر بھی جاری کیا جاتا ہے اور لٹریچر کے فروغ کیلئے ملکی و بین الاقوامی سطح کی 15 کانفرنسز کا بھی انعقاد کیا گیا ہے۔ ادارے کے 5 دفاتر چاروں صوبوں میں قائم ہیں اور نئے دفاتر بھی کھولے جارہے ہیں۔

کوئٹہ میں دفتر بنانے کیلئے پلاٹ مل چکا ہے مگر مقامی لوگ تعاون نہیں کر رہے یہ کمیٹی اس حوالے سے تعاون کر ے۔ سالانہ کتابوں کی نمائش بھی کرائی جاتی ہے اور مختلف زبانوں سے تعلق رکھنے والے دانشوروں کو 20 ایوارڈ بھی دیئے جا چکے ہیں۔ ایوارڈ میں 2 لاکھ روپے انعام بھی دیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے ایک کمیٹی قائم ہے جس میں دانشور اور شاعر حضرات شامل ہوتے ہیں جو میرٹ پر فیصلہ کرتے ہیں۔

بڑے شاعروں کو 10 لاکھ روپے انعام دیا جاتا ہے ایوارڈ کیلئے ایک کروڑ روپے بجٹ ملتا ہے جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ اس حوالے سے کم ازکم20 کروڑ روپے فنڈ مختص ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کی بڑی زبانوں کے ادبیوں، شاعروں اور دانشوروں کے لئے مفت گھر، علاج، ماہانہ وظیفہ اور دیگر مراعات و سہولیات بھی یقینی بنائی جائیں۔ اور ایوارڈ کی رقم 2 لاکھ کی بجائی10 لاکھ دی جائے۔

چیئرمین کمیٹی نے یہ ہدایت بھی دی کہ یہ ادارے ہمارے آباؤ اجدادکے ناموں کی فہرست تیار کریں تاکہ لوگ اپنے بچوں کے نام اپنے آباؤ اجداد کے نام پر رکھ سکیں۔ ماضی کے نام ناپید ہو تے جارہے ہیں ان کا تحفظ کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ پشتو، بلوچی، سندھی، سرائیکی، پنجابی، بروہی زبانوں کے دانشوروں، ادیبوں، شاعروں اور ڈرامہ نگاروں کی کتابوں کو دوسری زبانوں میں ترجمہ کیا جائے اور خاص طور پر خان شہید عبدالصمد اچکزئی، جی ایم سید، ذوالفقار علی بھٹو، رسول بخش پلیجو،باچا خان، غوث بخش بزنجو، سائیس کمال خان شیرانی اور عبدالرحیم مندوخیل کی کتابوں کا ترجمہ انتہائی ضروری ہے جو تاریخی اثاثہ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ زبانوں کے فروغ کے حوالہ سے قائم اکیڈمیز کو سالانہ کم سے کم ایک کروڑ روپے گرانٹ وفاق کی طرف سے دینی چاہئے اور سائیس کمال خان شیرانی، علامہ عبدالعلٰی اخونزادہ کے نام سے بھی ایوارڈ دینا چاہئے۔ سینیٹر کلثوم پروین نے کہا کہ ایک فاؤنڈیشن ہونی چاہیے جس میں فنکاروں، دانشوروں اور مفکروں کی فلاح وبہبود کیلئے اقدامات اٹھانے چاہیں۔ فاؤنڈیشن کو حکومت فنڈ فراہم کر ے اور فاؤنڈیشن کے ممبران ایسے لوگوں کی مدد کریں۔ کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹرز سردار محمد شفیق ترین، گیان چند اور سینیٹر کلثوم پروین کے علاوہ سیکرٹری قومی تاریخ و ادبی ورثہ ڈویژن، ڈی جی ادارہ فروغ قومی زبان، چیئرمین اکادمی ادبیات و دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔