سی پیک 49,661.4بلین ڈالر کا منصوبہ ہے،29,531.4 بلین ڈالر منصوبے مکمل یا مکمل ہونے کے فیز میں ہیں،سیکرٹری منصوبہ بندی

زیادہ تر انفراسٹرکچر منصوبوں کی ری پیمنٹ کا آغاز 2021سے ہو گا،ایم ایل ون پر بدستور مذاکرات ہو رہے ہیں،گوادر پراجیکٹس کیلئے چین بلاسود قرضے فراہم کریں گی،گوادر انٹرنیشنل ائیرپورٹ گرانٹ کے ذریعے 230ملین ڈالر کی لاگت سے مکمل ہو گی،جوں جون منصوبے آتے جائیں گے ،نئے منصوبوں کی شمولیت سے لاگت49بلین ڈالر سے بڑھ جائے گا،سی پیک کے توانائی کے منصوبوں میں کل 18751ورکرز کام کریں گے جس میں 12314 پاکستانی ہوں گے ،ظفر حسن کی بریفنگ کمیٹی نے اگلے اجلاس میں سولہ منصوبوں بارے وفاق اور صوبوں سے تفصیلی بریفینگ طلب کر لی

جمعرات 13 جون 2019 19:37

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 13 جون2019ء) سینیٹ سپیشل کمیٹی برائے چین پاکستان اقتصادی راہداری کو بتایاگیا ہے کہ سی پیک 49,661.4بلین امریکی ڈالر کا منصوبہ ہے،29,531.4 بلین ڈالر منصوبے مکمل یا مکمل ہونے کے فیز میں ہیں،زیادہ تر انفراسٹرکچر منصوبوں کی ری پیمنٹ کا آغاز 2021سے ہو گا،ایم ایل ون پر بدستور مذاکرات ہو رہے ہیں،گوادر پراجیکٹس کیلئے چین بلاسود قرضے فراہم کریں گی،گوادر انٹرنیشنل ائیرپورٹ گرانٹ کے ذریعے 230ملین ڈالر کی لاگت سے مکمل ہو گی،جوں جون منصوبے آتے جائیں گے ،نئے منصوبوں کی شمولیت سے لاگت49بلین ڈالر سے بڑھ جائے گا،سی پیک کے توانائی کے منصوبوں میں کل 18751ورکرز کام کریں گے جس میں 12314 پاکستانی ہوں گے جبکہ کمیٹی نے اگلے اجلاس میں سولہ منصوبوں بارے وفاق اور صوبوں سے تفصیلی بریفینگ طلب کر لی۔

(جاری ہے)

جمعرات کو سینیٹ سپیشل کمیٹی برائے چین پاکستان اقتصادی راہداری کا اجلاس چیئرپرسن شیری رحمان کی زیر صدارت ہوا ۔ چیئر پرسن کمیٹی نے کہاکہ سی پیک منصوبے کی قرضوں میں شفافیت ہمیشہ سے مسئلہ رہا ہے۔ شیری رحمن نے کہاکہ چینی سفیرسے ملاقات مین چینی قرضوں کے بارے تحفظات سے آگاہ کیا۔ انہوںنے کہاکہ حکومت کی طرف سے سی پیک قرضوں بارے واضح موقف نہیں آ رہی،رول کو چیک کرکے چینی سفیر کو سی پیک پر بریفنگ کیلئے کمیٹی میں بلائیں گے۔

شیری رحمن نے کہاکہ چین بلا سود قرضے کی فراہمی کیلئے تیار ہے۔ وفاقی وزیر پارلیمانی امور سینیٹر اعظم سواتی نے کمیٹی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ سی پیک کے حوالے سے ایک انتہائی اعلی سطح کی اتھارٹی ہونی چاہیے ۔انہوںنے کہاکہ سی پیک ہمارے لئے انتہائی اہم ہیں،اس کو فوکس کرنا ہے تو سارے سمت سے کرنا ہے۔ انہوںنے کہاکہ حکومت سے حکومت کے مابین تعلقات سے زیادہ لوگوں سے لوگوں کے مابین تعلقات اہم ہیں۔

انہوںنے کہاکہ یہی چین پاکستان اقتصادی راہداری کا مقصد ہے۔سیکرٹری وزارت منصوبہ بندی ظفر حسن نے کمیٹی کو بریفینگ دیتے ہوئے کہاکہ سی پیک 49,661.4بلین امریکی ڈالر کا منصوبہ ہے،29,531.4 بلین ڈالر منصوبے مکمل یا مکمل ہونے کے فیز میں ہیں،یہ 23منصوبے ہیں،یہ آئی پی پی موڈ کے منصوبے ہیں،توانائی منصوبے نجی شعبے کے ذریعے مکمل ہو رہے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ انفراسٹرکچر کے 6بلین ڈالر کے حکومت سے حکومت کے منصوبے شامل ہیں،زیادہ تر انفراسٹرکچر منصوبوں کی ری پیمنٹ کا آغاز 2021سے ہو گا۔

انہوںنے کہاکہ ایم ایل ون پر بدستور مذاکرات ہو رہے ہیں،گوادر پراجیکٹس کیلئے چین بلاسود قرضے فراہم کریں گی۔ انہوںنے کہاکہ حکومت سے حکومت منصوبے میں قراقرم ٹو تھاکوٹ سے حویلیاں جس پر 1315 ملین ڈالر لاگت آئے گی۔ انہوںنے کہاکہ گوادر میں اس وقت دس منصوبے شامل ہیں۔ انہوںنے کہاکہ ایسٹ بے ایکسپریس وے کا منصوبہ جس پر تقریباً140.6ملین لاگت آئیگی،جس کی مکمل ہونے کی ڈیڈلائن اکتوبر2020ہے۔

انہوںنے کہاکہ گوادر انٹرنیشنل ائیرپورٹ گرانٹ کے ذریعے 230ملین ڈالر کی لاگت سے مکمل ہو گی۔ انہوںنے کہاکہ سی پیک ساکن منصوبہ نہیں،جوں جون منصوبے آتے جائیں گے ،نئے منصوبوں کی شمولیت سے لاگت49بلین ڈالر سے بڑھ جائے گا۔ کراچی پشاور موٹروے (سکھر-ملتان) سیکشن جس پر 2889ملین ڈالر لاگت آئے گی،اورینج لائن پر 1626ملین ڈالر لاگت آئے گی۔سینیٹر میر کبیر محمد شاہی نے کمیٹی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ گودار ایئرپورٹ کا سنگ بنیاد رکھا گیا مگر ایک کمرے اور چوکیدار کے سوا کچھ نہیں۔

انہوںنے کہاکہ ہمارے جتنے بھی منصوبے ہیں وہ سب پائپ لائن میں ہیں۔ انہوںنے کہاکہ سی پیک میں بظاہر بلوچستان کیلئے کوئی منصوبہ نہیں۔وفاقی وزیر منصوبہ بندی مخدوم خسرو بختیار نے کمیٹی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ مغربی روٹ پر ڈی آئی خان،کوئٹہ کچلاک روڈ بن رہے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ باقی سارے پچھلے منصوبوں کو آگے لے کر جا رہے ہیں۔

انہوںنے کہاکہ کوئٹہ کچلاک روڈ کیلئے زمین حاصل کی گئی ہے اس سال پی ایس ڈی پی میں رقم مختص کر دی ہے۔ انہوںنے کہاکہ گوادر کو نیشنل گرڈ سے منسلک کرنے کیلئے پی ایس ڈی پی میں 17ارب مختص کی ہے۔ انہوںنے کہاکہ گوادر کے لوگوں کی ماہی گیری کے صنعت کے تحفظ کیلئے ایسٹ بے منصوبے کی ری اسٹرکچرنگ کا منصوبہ بھی ہے۔ انہوںنے کہاکہ پچھلے سال بلوچستان کیلئے پی ایس ڈی پی میں سات ارب مختص کئے گئے تھے۔

انہوںنے کہاکہ اس سال بجٹ میں پسماندہ علاقوں کیلئے خصوصی فنڈز مختص کی ہے۔ انہوںنے کہاکہ اب حکومت کے پاس بہت کم فنڈز بچتے ہیں۔انہوںنے کہاکہ کلائمیٹ چینج کیلئے 8ارب،فاٹا کیلئے ترقیاتی بجٹ 22ارب سے بڑھ چکا ہے۔ انہوںنے کہاکہ پی ایس ڈی پی میں سب سے زیادہ فنڈز بلوچستان کیلئے رکھے گئے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ سترہ ارب صرف گوادر گرڈ اسٹیشن کیلئے رکھے ہے۔

انہوںنے کہاکہ کوئٹہ ماسٹر پلان،کچی کینال کے منصوبے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ سب سے زیادہ بلوچستان کا خیال رکھا گیا ہے۔ سیکرٹری منصوبہ بندی ظفر حسن نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے کہاکہ سی پیک کے پہلے فیز کا فوکس توانائی کا شعبہ تھا،سی پیک کے دوسرے فیز کا فوکس مختلف شعبوں کی ترقی ہے۔ انہوںنے کہاکہ معاشی و معاشرتی ترقی اور غربت کا خاتمہ نئیفیز کا حصہ ہے۔

انہوںنے کہاکہ معاشی و معاشرتی ترقی کے 6اہم شعبے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ زراعت،تعلیم،صحت،غربت کے خاتمے،پانی کی سپلائی اور وکیشنل تعلیم کے شعبے شامل ہیں۔ انہوںنے کہاکہ پہلے فیزکیلئے 200ملین امریکی ڈالر لاگت آئے گی۔ انہوںنے کہاکہ اقتصادی زون میں صرف چینی سرمایہ کار نہیں بلکہ پاکستان کے سرمایہ کار بھی سرمای کاری کر سکیں گے۔ انہوںنے کہاکہ تیسرے ملک کی شراکت داری کیلئے پاک چین بزنس فورم قائم کیا گیا ہے۔

انہوںنے کہاکہ بہاولپور کو پہلے فیز میں میٹ ایکسپورٹ زون بنایا گیا ہے۔ انہوںنے کہاکہ سی پیک کے توانائی کے منصوبوں میں کل 18751ورکرز کام کریں گے جس میں 12314 پاکستانی ہوں گے، 66فیصد ملازمین پاکستانی ہوں گے۔ انہوںنے کہاکہ ٹرانسپورٹ کے منصوبے میں 79فیصد ملازمین پاکستانی ہوں گے۔چیئرمین گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے کہاکہ ایسٹ بے ایکسپریس وے 19کلو میٹرکا ہے،یہ گوادر فری زورن سے شروع ہوتا ہے،معاہدے کے تحت گوادر کے فری ٹریڈ ایریاز کو ہی چین کو دہتے ہیں۔

انہوںنے کہاکہ پائلٹ پراجیکٹس کیلئے فری زون ہی فوکس ہے،جس کیلیے پانچ انڈسٹریز آئی ہیں جس میں سے تین چینی اور دو پاکستان کے ہیں،48بلین منصوبے سے زمین خریدنے کیلئے پی سی ون پلاننگ کمیشن کو بھجوا دی ہے،حکومت پاکستان کو ٹرمینل سے 9فیصدمل ہے ہیں۔چیئرپرسن شیری رحمن نے کمیٹی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ بلوچستان میں سی پیک میں کیا مل رہا ہی یہ سوال چین سے نہیں حکومت پاکستان سے پوچھنا چاہئے،آدھے منصوبے کیلئے چین نے گرانٹس دیئے ہیں،سولہ منصوبوں کیلئے صرف 200ملین ڈالر انتہائی ناکافی ہے،کیا غربت کے خاتمے کیلئے بیوروکریسی کی کس طرح ٹریننگ دیں گی،جولائی میں چینی ماہرین آرہے ہیں اور صوبوں سے فیڈ بیک ہی نہیں آئے۔

وفاقی وزیر پارلیمانی امور اعظم سواتی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ وزیر اعظم نے سی پیک کے تحت پسماندہ علاقوں کی ترقی کو فوکس کرنے کا عہد کیا،ہزارہ میں محرومی ہے اور الگ صوبے کا مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے،سی پیک میں ہزارہ کیلئے کوئی منصوبہ رکھا گیا ہے۔سینیٹر عثمان خان کاکڑ نے کمیٹی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ چینیوں نے مغربی روٹ ڈی آئی خان ڑوب کیلئے ایک روپیہ بھی فراہم کیا ہے تو بتا دے۔

انہوںنے کہاکہ یہ فنڈز کم ترقی یافتہ علاقوں میں خرچ ہونے کی بجائے ترقی یافتہ علاقے میں خرچ ہونے کا خدشہ ہے۔ انہوںنے کہاکہ بلوچستان میں پانی کے مسائل ہے،چھوٹے ڈیمز کی تعمیر کیلئے فنڈز فراہم کی جائیں۔ انہوںنے کہاکہ کمیٹی نے اگلے اجلاس میں سولہ منصوبوں بارے وفاق اور صوبوں سے تفصیلی بریفینگ طلب کر لی