Live Updates

عوام دشمن بجٹ کو مسترد کرتے ہیں،عوام کی زندگی مزید ابتر ہوجائے گی ،سید مصطفی کمال

اس بجٹ میں بھی انہی لوگوں پر مزید ٹیکس لگائے گئے ہیں جو پہلے سے ٹیکسز ادا کر رہے ہیں،چیئرمین پی ایس پی کی پریس کانفرنس

جمعرات 13 جون 2019 23:21

عوام دشمن بجٹ کو مسترد کرتے ہیں،عوام کی زندگی مزید ابتر ہوجائے گی ،سید ..
کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 13 جون2019ء) پاک سرزمین پارٹی کے چیئرمین سید مصطفیٰ کمال نے کہا ہے کہ عوام دشمن بجٹ کو مسترد کرتے ہیں۔ جو بجٹ پیش کیا گیا ہے اس سے عوام کی زندگی مزید ابتر ہو جائے گی، اس بجٹ میں بھی انہی لوگوں پر مزید ٹیکس لگائے گئے ہیں جو پہلے سے ٹیکسز ادا کر رہے ہیں، پی ٹی آئی کا پیش کردہ بجٹ ایک روایتی بجٹ ہے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے پارٹی صدر انیس قائم خانی و اراکین سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی و نیشنل کونسل کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ بدترین سیاسی مخالف بھی اگر اچھا کام کرے تو اس کی تائید کرتے ہیں، تبدیلی کے نام پر پی ٹی آئی کی حکومت کو آئے ہوئے 10 ماہ ہو چکے ہیں، عوام کو مایوسی در مایوسی ہو رہی ہے، ہر گزرتے دن کے ساتھ مایوسی بڑھتی جا رہی ہے۔

(جاری ہے)

عوام سمجھ رہی تھی کہ شاید اب یہ جو بجٹ بن رہا ہے وہ پی ٹی آئی کے منشور اور وعدوں کے مطابق ہوگا لیکن اس میں امیر اور غریب سب بالترتیب پسنے والے ہیں جس کا مجموعی طور پر نقصان پاکستان کو ہوگا۔ 5550 ارب روپے کا بجٹ پیش کیا گیا ہے جس میں سے 3255 ارب روپے این ایف سی ایوارڈ کے ذریعے صوبوں کو دیئے جائیں گے جب کے کل اخراجات 8980 ارب روپے ہونگے جس کی وجہ سے بجٹ خسارہ 3430 ارب روپے کا ہوگا۔

جب آمدنی اخراجات سے کم ہوگی تو اس کا مطلب ہے کہ حکومت بجٹ میں عوام سے جو وعدے کر رہی ہے وہ پورے نہیں کرے گی۔ تعلیم، صحت اور صوبوں کو مختص کی گئی رقوم نہیں ملیں گی۔ عمران خان نے اپنی پہلی تقریر میں کہا تھا کہ ملک کے 45 فیصد بچے ذہنی اور جسمانی کمزوری کا شکار ہیں، پاکستان میں 2.5 کروڑ بچے اسکولوں سے باہر ہیں لیکن اس کے باوجود اس بجٹ میں ان بچوں کا کوئی ذکر نہیں ہے۔

صرف لکھ دیا گیا ہے کہ 93 ارب روپے پانی ار غذا پر خرچ کرے گی لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ کہاں کرے گی، لوگ آدھی روٹی بھی کھا کر گزارا کر لیں گے لیکن مستقبل کی کوئی امید تو ہو کہ ہماری آئندہ نسلیں بہتر ہو جائینگی لیکن بجٹ کو دیکھ کر لگتا ہے آج بھی اندھیرا ہے اور مستقبل بھی اندھیروں میں ہی رہیگا۔ حکومت کو ملک میں تعلیم، صحت اور غذا کی فراہمی کیلئے ایمرجنسی کا نفاذ کرنا چاہیے تھا، جب یہی بچے ہمارا مستقبل ہیں تو ہماری معیشت مضبوط کیسے ہوگی ان بچوں کی جسمانی اور ذہنی نشوونما کے لیے کچھ نہیں کیا گیا۔

ہم پہلے روز سے مطالبہ کرتے آرہے ہیں کہ این ایف سی ایوارڈ کو پی ایف سی ایوارڈ سے مشروط کیا جائے کیونکہ اس کے بغیر این ایف سی ایوارڈ کا عوام کو کوئی فائدہ نہیں کیونکہ سابقہ ایوارڈ میں بہت بے ضابطگیاں دیکھنے میں آئیں، پچھلیاعلان کردہ 526 ارب روپے میں سے ملنے والے 406 ارب روپے کا کیا ہوا، سارا پیسہ کرپشن کی نظر ہو رہا ہے۔ کراچی اکیلا 5550 ارب روپے کے بجٹ میں تقریباً 3000 ارب کما کر دیگا جس میں سے 799 ارب روپے سندھ کو ملیں گے اور اس میں سے ایک روپیہ بھی کراچی پر خرچ ہوگا یا نہیں یہ کسی کو معلوم نہیں، کس ڈسٹرکٹ کو صوبہ کتنے پیسے دیگا یہ فارمولا پیسے دینے سے پہلے صوبوں سے لیا جانا چاہیے۔

اٹھارویں ترمیم سے پہلے صرف ایک جگہ اختیارات جمع تھے اب چار اور جگہ ہوگئے لیکن نچلی سطح تک منتقل نہیں ہوئے۔ وفاق سے کچھ کہو تو وہ کہتے ہیں صوبوں سے بات کرو کیا وزیراعظم پورے پاکستان کے وزیراعظم نہیں ہیں وہ اپنے اختیارات استعمال کریں۔ کراچی کے لیے 162 ارب روپے کے پیکج کے اعلان کے بعد صرف 45 ارب روپے 9 منصوبوں کیلئے رکھے گئے ہیں جو اونٹ کے منہ میں زیرہ ڈالنے کے مترادف ہے۔

پچھلے 15 سالوں سے کراچی کو ایک بوند پانی اضافی نہیں دیا گیا جس سے پورا ملک کمائے گا اس کے اہم ترین منصوبے کے فور پر سیاست کی جا رہی ہے۔ ایف 3 اور ٹرانسپورٹ کے نظام پر کوئی بات نہیں کی جا رہی کراچی تباہ حال ہے ہم گندا پانی سمندر میں پھینک رہے ہیں جس کی وجہ سے ہمارا سمندر گندگی کا ڈھیر بن چکا ہے لیکن ایف 3 کا ہمارا جو منصوبہ 7 ارب کا تھا آج وہ 42 ارب سے زیادہ کا ہونے کے باوجود سیاست کی نظر ہو چکا ہے۔

اس سب کے بو جو ٹیکس نیٹ بڑھانے کا کوئی پلان موجود نہیں، جو ٹیکس دے رہے تھے انہی پر مزید ٹیکس عائد کیے گئے ہیں، پہلے 12 لاکھ کی آمدنی پر ٹیکس عائد ہوتا تھا اب 6 لاکھ روپے کی آمدنی پر ٹیکسز عائد ہونگے۔ دنیا بھر میں ٹرانسپورٹ کا نظام نقصان میں چلایا جاتا ہے تاکہ غریب کم سے کم پیسے میں اپنے کام کی جگہ پہنچ جائے دنیا بھر کے ترقی یافتہ شہروں میں ٹرانسپورٹ کا نظام خسارے میں چل رہا ہے، دنیا بھر میں امیروں سے ٹیکس لے کر غریبوں پر خرچ کیا جاتا ہے لیکن یہاں حکومت کے پاس غریبوں کیلئے کچھ نہیں ہے، ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس پر انویسٹمنٹ کرے بغیر ملک ترقی نہیں کر سکتا۔

انہوں نے کہا کہ ایک عام آدمی کی پریشانی میں مزید اضافہ ہوگا۔ آٹا، گھی، چاول، دالیں غرض بچوں کا خشک دودھ بھی عوام کی پہنچ سے دور ہوچکا ہے، حکومت آنے کے بعد سے بجلی میں 30 فیصد، گیس میں 145 فیصد، دواؤں میں 300 فیصد تک اضافہ کر چکی ہے۔ افراط زر 2.9 فیصد سے 9.2 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ جو گھر پہلے دس ہزار میں چلا کرتا تھا وہ بغیر کسی اضافی خرچے کے ویسے ہی اب تیس ہزار روپے میں چلے گا جبکہ آمدنی میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔

روزگار کم ہو رہا ہے لوگ مزید غربت کی سطح سے نیچے جا رہے ہیں جبکہ حکومت صرف کہہ رہی ہے کہ گھرانہ نہیں ہے۔ غریب زندہ بچے گا تو گھبرائے گا۔ وفاقی حکومت پہلے ہی 3400 ارب ڈالر کے نئے نوٹوں کا اجراء کر چکی ہے اور اب یہ بیان دیرہی ہے کہ ہم آ ج کے بعد نئے نوٹوں کو نہیں چھاپیں گے کس طرح سے ان کی بات پر یقین کریں کیونکہ وزیراعظم خود کہتیہیں کہ جو یو ٹرن نہیں لے وہ لیڈر ہی نہیں۔

۔۔ یاد رہے کہ ہماری بجٹ خسارہ 3000 ارب ڈالرز سے زیادہ ہے یہ جی ڈی پی کا سات فیصد ہے ہمارے خطہ کے ممالک میں یہ شرح سب سے زیادہ ہے۔تاجروں کی بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا جو ہماری درآمدات 50 ارب ڈالر جبکہ برآمدات 25 ارب ڈالر ہے، 30 ارب کا تجارتی خسارہ کیسے پورا کریں گی، اسکا کوئی جواب نہیں، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ 400 سے 600 لگژری آئیٹمز کی برآمد پر مکمل پابندی لگاتے اور لوکل صنعت کو فروغ دیتے لیکن یہاں بھی الٹا کام کیا کہ ان اشیاء پر ٹیکس بڑھا دیا جسکا نقصان ہوگا. جو کاروباری طبقہ ایکسپورٹ کرتا ہے اور چھوٹی انڈسٹریل چلاتا ہے اس کے لیے تو فیکٹریاں بند کرنے کا وقت آگیا ہے کیونکہ کہ 17 فیصد ٹیکس دینا ناممکن ہے کیونکہ وہ 5 فیصد پر کام کرنے والے تاجر کس طرح کاروباری سرگرمیاں جاری رکھیں گے، ایف بی آر ری بیٹ کی رقم 90 دن میں واپس کی جاتی ہے جو کبھی کبھی 180 دن بھی بن جاتے ہیں کس طرح چھوٹا کاروباری تو اپنے کاروبار کو تالہ ڈال کر نوکری ڈھونڈ نے نکلے گا مگر بے روزگاروں کی تعداد تو پہلے ہی لاکھوں میں ہے سوچیں پھر حالات کس طرف جا سکتے ہیں یہاں صرف الفاظوں کے ھیر پھیر کیے جارہے ہیں اور قوم کو دھوکا دیا جا رہا ہے۔

Live عمران خان سے متعلق تازہ ترین معلومات