قرضوں اور مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے، بجٹ پاکستان کی تاریخ کا سب سے زیادہ خسارے والا بجٹ ہے،

حکومت تحقیقاتی کمیشن ضرور بنائے تاکہ حقائق قوم کے سامنے آئیں، حکومت نے سوشل سیکٹر میں سب سے بڑا پروگرام متعارف کرایا ہے، فیصلہ کرنا ہوگا کہ ٹیکسوں کے ذریعے پیسہ جمع کر کے ملک چلانا ہے یا قرضہ لے کر: ایوان بالا میں مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ارکان کا اظہار خیال

جمعہ 14 جون 2019 15:38

قرضوں اور مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے، بجٹ پاکستان کی تاریخ کا سب سے زیادہ ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 14 جون2019ء) ایوان بالا میں مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ارکان نے کہا ہے کہ حکومت نے بجٹ سے قبل ہی بہت سے اہم اقدامات کر لئے تھے، قرضوں اور مہنگائی میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے، موجودہ بجٹ پاکستان کی تاریخ کا سب سے زیادہ خسارے والا بجٹ ہے۔ حکومت تحقیقاتی کمیشن ضرور بنائے تاکہ حقائق قوم کے سامنے آئیں۔

موجودہ حکومت نے سوشل سیکٹر میں سب سے بڑا پروگرام متعارف کرایا ہے، فیصلہ کرنا ہوگا کہ ٹیکسوں کے ذریعے پیسہ جمع کر کے ملک چلانا ہے یا قرضہ لے کر۔ جمعہ کو ایوان بالا میں آئندہ مالی سال کے بجٹ پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے سینیٹر جنرل (ر) عبدالقیوم نے کہا کہ تعلیم و صحت سمیت مختلف شعبوں کے حوالے سے یہ بجٹ حوصلہ افزاء نہیں ہے، دفاع کے شعبے میں اندرونی و بیرونی خطرات درپیش ہیں، ہمیں ان کو پیش نظر رکھنا ہوگا۔

(جاری ہے)

معیشت کے حجم اور فی کس آمدن میں کمی آئی ہے۔ قرضوں میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے، ہمارے دور میں جو قرضے لئے گئے ان سے ملک میں بڑے بڑے ترقیاتی منصوبے شروع کئے گئے۔ ہم نے سابق حکومت کے دور میں لئے گئے قرضے بھی ادا کئے، موجودہ حکومت نے جو اقتصادی ٹیم بنائی اس نے کارکردگی نہیں دکھائی،اس لئے اسے ہٹانا پڑا، دنیا کے بڑے بڑے ادارے ہمارے دور میں ملک کی معیشت کو تیزی سے ترقی کرتا قرار دے رہے تھے۔

بین الاقوامی سطح پر ہماری کارکردگی کو سراہا جا رہا تھا، محض کرنسی کی قدر میں کمی سے برآمدات نہیں بڑھیں۔ ہمیں اپنی صنعتوں کی حوصلہ افزائی کرنا ہوگی۔ تعلیم و صحت پر مزید کام کرنے کی ضرورت ہے، ہم حکومت سے قومی سلامتی، ترقی و خوشحالی کے منصوبوں میں تعاون کے لئے تیار ہیں، وزیراعظم کی گذشتہ رات کی تقریر سے دکھ ہوا۔ سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ بجٹ سے قبل بھی حکومت نے بہت سے اہم اقدامات کر لئے تھے۔

مہنگائی میں بے تحاشا اضافہ ہو چکا ہے، بجلی، گیس، پٹرول کی قیمتیں بڑھ چکی ہیں، بنیادی اشیائے ضروریہ بھی عوام کی پہنچ اور قوت خرید سے باہر ہو چکی ہیں۔ موجودہ حکومت نے پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ خسارے والا بجٹ پیش کیا ہے، پاکستان نے آئی ایم ایف کے 22 پروگرام لئے ہیں لیکن کبھی ایسی کیفیت نہیں تھی، آئی ایم ایف سے طے پانے والی شرائط کوئی نہیں جانتا، ابھی مزید ٹیکس لگیں گے۔

موٹر سائیکل والے بھی پٹرول افورڈ نہیں کر پا رہے، 10 ماہ کے دوران چار ارب روزانہ قرضہ لیا گیا، حکومت تحقیقاتی کمیشن ضرور بنائے تاکہ حقائق قوم کے سامنے آئیں۔ سینیٹر ستارہ ایاز نے کہا کہ موجودہ بجٹ لفاظی سے زیادہ کچھ نہیں، لگتا ہے پرانے بجٹ کے اعداد و شمار کو آگے پیچھے کر دیا گیا ہے۔ عام آدمی پہلے ہی بے تحاشا ٹیکس دے رہا ہے، اس پر مزید ٹیکس لگائے جا رہے ہیں۔

وزیراعظم ہائوس کو یونیورسٹی بنانے کا اعلان کیا گیا تھا، اس پر عمل نہیں کیا گیا، حکومت وعدے پورے نہ کرنے پر قوم سے معذرت کرے۔ چینی پر بھی ٹیکس بڑھا دیا گیا ہے۔ عوام غربت کے ہاتھوں تنگ ہیں، اے این پی رہنمائوں کے نام کرپشن کیسوں میں نہیں ہیں۔ سینیٹر نعمان وزیر نے کہا کہ کے پی کے میں صحت کی بہترین سہولیات ہیں، ہر سیاسی جماعت میں شوگر مافیا بیٹھا ہے۔

سوشل سیکٹر میں ہمارا سب سے بڑا پروگرام چل رہا ہے۔ اب یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ ٹیکس کے ذریعے پیسہ جمع کیا جائے یا باہر سے پیسہ لے کر کام چلایا جائے ۔ مسلم لیگ (ن) نے ایک لاکھ آمدن والے کو بھی غریب میں شمار کیا، حکومت نے غریبوں کو بجلی پر سبسڈی دی، گیس بھی عام آدمی کے لئے سستی ہے جو زیادہ استعمال کرے گا اس کے لئے زیادہ قیمت ہے۔ عام آدمی کے لئے نہیں۔ آئی ایم ایف کی 90 فیصد باتیں ٹھیک ہوتی ہیں، دفاعی پیداوار کے اداروں نے 98 ارب کی سبسڈی مانگی ہے، اسٹیٹ اون انٹر پرائزز کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے، ان پر اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں، گرمی کی وجہ سے 14000 میگاواٹ کا فین اور اے سی لوڈ ہے، آئی پی پیز بے تحاشا منافع کما رہی ہے۔