پاکستان معاشی بحران کا شکار ہوچکا ،غیرملکی قرضہ 97 ارب ڈالر ہے،ڈاکٹر حفیظ شیخ

اس سال حکومت نے 2 ہزار ارب روپے سود دیا ہے،آئندہ مالی سال میں سود کی مد میں 3 ہزار ارب روپے دینا ہونگے،مشیر خزانہ ہم سب کچھ امپورٹ کر رہے ہیں ،اس صورتحال میں روپے کی قدر کو سنبھالا نہیں جاسکتا ہے ۔ ہم نے بجٹ میں نان فائلر کا تصور ختم کردیا ہے سب کوٹیکس دینا ہے اگر اس سے کوئی ناراض ہوتا ہے تو ہوجائے،لوگ شاہانہ زندگی گزار رہے ہیں اب ہمارا ہاتھ انکی جانب بڑھے گا،تقریب سے خطاب

جمعہ 14 جون 2019 17:31

پاکستان معاشی بحران کا شکار ہوچکا ،غیرملکی قرضہ 97 ارب ڈالر ہے،ڈاکٹر ..
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 14 جون2019ء) مشیر خارجہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا ہے کہ پاکستان معاشی بحران کا شکار ہوچکا ہے کیونکہ غیرملکی قرضہ 97 ارب ڈالر ہے ،اس سال حکومت نے 2 ہزار ارب روپے سود دیا ہے،آئندہ مالی سال میں سود کی مد میں 3 ہزار ارب روپے دینا ہونگے۔ہم سب کچھ امپورٹ کر رہے ہیں ،اس صورتحال میں روپے کی قدر کو سنبھالا نہیں جاسکتا ہے ۔

ہم نے بجٹ میں نان فائلر کا تصور ختم کردیا ہے، سب کوٹیکس دینا ہے اگر اس سے کوئی ناراض ہوتا ہے تو ہوجائے ۔کیبنٹ کی تنخواہوں میں 10فیصد کمی ہوئی،وزیراعظم ہاؤس کے خرچوں میں نمایاں کمی کی گئی۔ہمیں سوچنا ہوگا کہ کہاں ہمیں اپنے خرچے کم کرنے ہیں۔لوگ شاہانہ زندگی گزار رہے ہیں اب ہمارا ہاتھ انکی جانب بڑھے گا۔

(جاری ہے)

جمعہ کو کراچی میں کونسل آف فارن ریلیشنز کی تقریب سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ گزشتہ پانچ سال میں ایکسپورٹ میں صفر فیصد کی شرح سے اضافہ ہوا ہے۔

تجارتی خسارہ 40 ارب ڈالر ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم سب کچھ امپورٹ کر رہے ہیں ،اس صورتحال میں روپے کی قدر کو سنبھالا نہیں جاسکتا۔ پاکستان معاشی بحران کا شکار ہوچکا ہے۔انہوں نے کہا کہ روپے کی قدر پر میں بات نہیں کرونگا۔ وزارت خزانہ کوروپے شرح تبادلہ پر بات نہیں کرنا،شرح سود کا معاملہ اسٹیٹ بینک کا ہے وہ اس پر بات کرسکتے ہیں۔مشیر خزانہ نے کہا کہ میں نے 40 ملکوں کی معیشت پر کام کیا ہے۔

ہمیں خطرات کا مقابلہ کرنے کے لئے اقدامات کرنا تھے ، فوری بحران کو حل کرنے لئے دوست ملکوں سے مدد مانگی ، سعودی عرب اور اسلامی ترقیاتی بینک سے تیل کی تاخیرسے ادائیگی کا بندوبست کیا ۔ڈاکٹر حفیظ شیخ نے کہا کہ ہم آئی ایم ایف اس لئے گئے کہ دنیا کو بتا سکیں ہم اپنے وسائل پر رہنا چاہتے ہیں ۔ آئی ایم ایف میں جانے سے کم شرح سود پر قرض ملے گا ، آئی ایم ایف کی نگرانی کی وجہ سے دیگر ادارے بھی قرض دیتے ہیں۔

حفیظ شیخ نے کہا کہ بجٹ کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ بجٹ کو بہت ذیادہ سوچ بچار کے بعد بنایا ہے ۔ بزنس کمیونٹی کو مراعات دی ہیں اور بجٹ میں 100 ارب روپے رکھے ہیں۔انہوں نے کہا کہ مالیاتی خسارے کو کم کرنا ہوگا۔ ٹیکس میں اضافہ اور اخراجات میں کمی کرنا ہوگی۔ اگر لوگ برآمدی کافی پینا چاہتے ہیں تو اضافی قیمت دیں ۔اب ٹیکس ہر نان فائلر کودیناہوگا،اچھے شہری ہونے کے ناطے آپکو ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔

اس سے آپ کی انڈسٹری بہتر ہوگی۔مشیر خزانہ نے کہا کہ ہمیں آئینی طریقے سے لوگوں کوٹیکس نیٹ میں لانا ہوگا۔ہم نے قرض اس لئے لیا کہ ہمیں ماضی کی حکومتوں کا قرضہ ادا کرنا ہے۔گزشتہ سال کے برابر دفاع کا موجودہ بجٹ ہونا بہت اچھی بات ہے۔ہم نے دیکھا کہ اوپری سطح پربجٹ میں کٹوتیوں کا آغاز ہوا ہے۔انہوںنے کہا کہ کیبنٹ کی تنخواہوں میں 10فیصد کمی ہوئی،وزیراعظم ہاؤس کے خرچوں میں نمایاں کمی کی گئی۔

ہمیں سوچنا ہوگا کہ کہاں ہمیں اپنے خرچے کم کرنے ہیں۔لوگ شاہانہ زندگی گزار رہے ہیں اب ہمارا ہاتھ انکی جانب بڑھے گا۔ڈاکٹر حفیظ شیخ نے کہا کہ جو شخص 12لاکھ سالانہ کماتا ہے تو اسے 2500ادائیگی کرنی ہے۔کیا غلط ہی ڈاکٹر حفیظ شیخ نے کہا کہ پاکستان کی صورتحال بہت تشویشناک ہے اور ہم ماضی کا قرضہ ادا کرنے کیلیے نیا قرضہ لے رہے ہیں۔ہم نے سویلین حکومت کا خرچہ 50 ملین کم کیا ہے، ہم نے آرمڈ فورسز کے اخراجات میں اضافہ نہیں کیا ہے، ہم نے گریڈ 20 سے اوپر کے افسران کی تنخواہ میں اضافہ نہیں کیا ہے، یہ فیصلہ افواج کے افسران پر بھی لاگو ہوگا۔

حفیظ شیخ نے کہا کہ اگر تیل کی عالمی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے تو ہمیں بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کرنا پڑتا ہے، اگر بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے تو ہم نے کم بجلی استعمال کرنے والوں کے لیے بجٹ میں دو سو ارب روپے رکھے ہیں۔مشیر خزانہ نے کہا کہ پاکستان کی صورتحال بہت الارمنگ ہے، ترقی کا سنگ میل حاصل کرنے کے لیے آپ کو بہت کچھ کرنا ہے، ہم نے مشکل فیصلہ کیا ہے، ہمارے پاس دو چوائسز تھیں جیسے چل رہا ہے چلنے دیتے اور ہمیشہ کیلیے چلے جاتے، ہم اخراجات کم کرنے کی پالیسی پر جارحانہ انداز میں عمل کررہے ہیں۔

انہوںنے کہا کہ پچھلے 5 سالوں میں برآمدات میں اضافہ صفر فیصد ہے، ہمارے پاس استعداد ہی نہیں ہے کہ ہم ڈالر حاصل کرکے اپنا قرضہ ادا کریں۔مشیر خزانہ کا کہنا تھا کہ سب پوچھتے ہیں کہ ہم آئی ایم ایف کیوں گئے، ہم اس لیے گئے کہ آئی ایم ایف کم سود پر قرضہ دیتا ہے، آئی ایم ایف کے ذیلی اداروں سے مزید دو تین ارب ڈالر حاصل کرسکیں اور دنیا کو بتا سکیں کے ہم معاشی اصلاحات کرانا چاہتے ہیں۔

ڈاکٹر حفیظ شیخ نے کہا کہ یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ چند کمپنیاں 80 فیصد ٹیکس ادا کریں، 50 ملین بینک اکانٹس میں سے صرف ایک ملین ٹیکس ادا کریں اب یہ ممکن نہیں ہے، ہم اپنے اخراجات اور آمدن کے گیپ کو کم کرنے کی کوشش کررہے ہیں، ہم کاروباری طبقے کو برآمدات میں اضافے کے لیے مراعات دے رہے ہیں۔مشیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ کا کہنا تھا کہ اگر آپ نے 45 دن میں ریٹرن فائل نہیں کیا تو آپ خود بخود فائلر بن جائیں گے، اگر آپ کے پاس 25 لاکھ روپے کی گاڑی ہے تو آپ کو بتانا ہوگا آپ نے یہ گاڑی کہاں سے خریدی، ہم نان فائیلر کی کٹیگری ختم کررہے ہیں، ہم ایکسپورٹ پر کوئی ٹیکس نہیں لیں گے لیکن اگر آپ ملک میں اپنی مصنوعات فروخت کررہے ہیں تو آپ کو ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔

حفیظ شیخ نے کہا کہ ہم نے کبھی مسلسل معاشی ترقی حاصل نہیں کی، ہم بیرونی دنیا کے ساتھ کاروبار کرنا پسند نہیں کرتے، ہمارے کاروباری طبقے نے ملک سے باہر اچھے تعلقات نہیں بنائے، دس سالوں میں برآمدات میں کوئی اضافہ نہیں ہوا، چین مسلسل 40 سال سے ترقی کر رہا ہے، پاکستان معاشی ترقی طویل مدت نہیں رہی، ہم نے 70 سال میں اپنی مصنوعات دنیا کو فروخت نہیں کی۔