Live Updates

وفاق کا رویہ انتہائی افسوس ناک اور غیر ذمہ دارانہ ہے، سید مراد علی شاہ

ہمیں 30 مئی کو بتایا گیا کہ ہم سندھ کو 666 بلین روپے دیں گے،پھر 4 جون ایک خط لکھا کہ 662 بلین روپے دیں گے، پھر وفاقی بجٹ میں 631 بلین روپے کا اعلان کیا ں*میں گذشتہ 10 سال سے بجٹ بنا رہا ہوں ، لیکن اس طرح کی صورتحال کبھی پیش نہیںآئی A حزب اختلاف کی سخت الفاظ میں مذمت کرتا ہوں اور جس طرح انہوں نے احتجاج کیا وہ ناقابلِ برداشت تھا،یہ اپوزیشن اصل میں بجٹ کی منظوری میں حصہ لینا نہیں چاہتی ؔ اپوزیشن کو اپنی رائے پیش کرنے کا موقع ضرور دوں گا، وزیر اعلیٰ سندھکا پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس سے خطاب

ہفتہ 15 جون 2019 22:08

وفاق کا رویہ انتہائی افسوس ناک اور غیر ذمہ دارانہ ہے، سید مراد علی شاہ
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 15 جون2019ء) وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ وفاق کا رویہ انتہائی افسوس ناک اور غیر ذمہ دارانہ ہے، ہمیں 30 مئی کو بتایا گیا کہ ہم سندھ کو 666 بلین روپے دیں گے،پھر 4 جون ایک خط لکھا کہ 662 بلین روپے دیں گے اور پھر وفاقی بجٹ میں 631 بلین روپے کا اعلان کیا ،میں گذشتہ 10 سال سے بجٹ بنا رہا ہوں ، لیکن اس طرح کی صورتحال کبھی پیش نہیںآئی۔

انہوں نے کہا کہ میں حزب اختلاف کی سخت الفاظ میں مذمت کرتا ہوں اور جس طرح انہوں نے احتجاج کیا وہ ناقابلِ برداشت تھا۔یہ اپوزیشن اصل میں بجٹ کی منظوری میں حصہ لینا نہیں چاہتی۔انہوں نے کہا کہ میں اپوزیشن کو اپنی رائے پیش کرنے کا موقع ضرور دوں گا۔ پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس سے خطاب میں انہوں نے اپوزیشن پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن سیاسی میدان میں نااہل ہے لیکن اٴْن کے غلط رویوں پر بھی ہم صبر کا دامن تھامے ہوئے ہیں کیونکہ ہماری لیڈر شپ نے ہمیں منع کیا ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ پچھلے سال 18-2017 میں سندھ حکومت نے ڈپولپمنٹ میں ریکارڈ سرمایہ کاری کی تھی۔ہمارے ترقیاتی بجٹ کا سائز 18-2017 میں 274 بلین روپے تھا جبکہ ہم اسے 252 بلین روپیپر لے ا?ئے ہیں جبکہ دیکھا جائے تو ایک طرح سے پنجاب حکومت نے بجٹ بنایا ہی نہیں ،انہوں نے 635 بلین روپے کا ترقیاتی بجٹ بنایا اور اٴْس کو 238 بلین روپے تک لے ا?ئے۔وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ 30 اپریل 19-2018 سندھ نے 137 بلین روپے خرچ کیے جبکہ پنجاب نے 389 بلین روپے استعمال کیے اور رواں سال 19-2018 میں ہم نے 80.5 بلین روپے استعمال کیے۔

انہوں نے کہا کہ اس سال ہم اپنی اے ڈی پی میں 100 بلین روپے کم خرچ کریں گے اور فنڈز کم کروائیں گے۔ہمیں 31 مئی 2019 تک 631 بلین میں سے 492.1 بلین روپے دیئے گئے ہیں۔ اس بات کا ذکر میں اسمبلی میں کروں گا کہ A 140 بلین روپے وفاق نے سندھ حکومت کو دینے ہیں۔مراد علی شاہ نے کہا کہ این ای سی کا اجلاس 28 مئی کو ہوناتھا۔انہوں نے کہا کہ جب خاقان عباسی پاکستا ن کے وزیراعظم تھے تو خیبرپختونخواہ، بلوچستان اور سندھ نے این ای سی اجلاس کا بائیکاٹ کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ 29 مئی کے این ای سی کا اجلاس جو وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت میں ہواتھا میں نے اٴْس اجلاس میں کہا تھا کہ گذشتہ این ای سی کا اجلاس ناخوشگوار تھا، اس میں بہتری لائیں۔انہوں نے کہا کہ ا?ج 29 مئی کو ہونے والے این ای سی کے اجلاس کے منٹس ا?ئے ہیں اور جس میں ہماری 29 اسکیمیں ختم کردی گئی ہیں اورمنٹس میں اسکیم ختم کرنے کا الزام پچھلی حکومت پر لگایا گیاہے جبکہ اس این ای سی اجلاس کا بائیکاٹ وزیراعظم نے خود کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ 835 بلین روپے جو وفاقی حکومت سے نئے سال میں ا?نے ہیں اٴْن کو اور اپنی ا?مدن کو سامنے رکھتے ہوئے بجٹ بنایا ہے۔ہم نے ایک متوازن بجٹ بنایا ہے۔ہمارے بجٹ میں نہ خسارہ ہے اور نہ کوئی اضافہ ہے اور بالکل معیاری بجٹ ہے۔ مراد علی شاہ نے کہا کہ میں 25 فیصد تنخواہیں بڑھانا چاہتا تھا لیکن فنڈز نہ ہونے کی وجہ سے 15 فیصد بڑھائیں۔پنجاب نے 237 بلین روپے کا اضافی بجٹ دیا ہے لیکن تنخواہوں کی مد میں خاطر خواہ کا اضافہ نہیں کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ا?ئی ایم ایف کے ا?نے پر یہ اضافی بجٹ بنایا ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر بجٹ کے پیسے اسٹیٹ بینک میں رکھیں گے تو اٴْس پر منافع نہیں ملتا اور اگر قرض لیں تو اس پر سود لیتے ہیں۔وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ وزیراعظم کے ہر اجلاس میں ایک نیا تجربہ ہوتا ہے۔ہمارے بجٹ کا ا?ئوٹ لے 1.2 ٹریلین روپے ہے ،جس کا 28 فیصد ترقیاتی اور 71 فیصد غیر ترقیاتی ہے۔

اس 71 فیصد میں لوکل حکومت کی او زیڈ ٹی اور مختلف اداروں جیسے ایس ا?ئی یو ٹی وغیرہ کو گرانٹس جاتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہم نے تعلیم کو 220 بلین روپے کا بجٹ دیا ہے جوکہ گذشتہ سال سے 18 فیصد زیادہ ہے اسی طرح صحت کو 19 فیصد زیادہ ،خصوصی تعلیم کو 76 فیصد زیادہ، امن و امان کو 57 فیصد زیادہ دیا ہے۔ وفاقی حکومت کا پی ایس ڈی پی 951 بلین روپے ہے جس میں سندھ کو کٴْل 3.5 فیصد حصہ دیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس سال ہمیں ترقیاتی پورٹفولیو کے لیے 228 بلین روپے ، ڈسٹرکٹ اے ڈی پی کے لیے 20 بلین روپے ، ایف پی اے کے لیے 51 بلین روپے، وفاقی پی ایس ڈی پی 4.9 بلین روپے ملیں گے۔ہم نے جاری اسکیموں کے لیے 78 فیصد فنڈز مختص کیے ہیں اور نئی اسکیموں کے لیے 22 فیصد رکھے ہیں۔ہم نے این ا?ئی سی وی ڈی ، جے پی ایم سی اور این ا?ئی سی ایچ کے لیے فنڈز رکھے ہیں۔

عدالت نے وفاقی حکومت کو کہا کہ ا?پ ان اسپتالوں کو سنبھالنے کے لیے سندھ حکومت سے بات کریں اور ہم سے بات کیے بغیر ہی نوٹیفکیشن نکال دیا کہ وفاقی حکومت نے ان اداروں کو ٹیک اوور کرلیاہے۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت نے ان اداروں کے لیے بجٹ میں ایک روپیہ بھی نہیں رکھا۔ اگر ہم وفاقی حکومت کے ٹیک اوور نوٹیفکیشن پرعمل کرتے تو یہ اسپتال بند ہوجاتے۔

انہوں نے کہا کہ 2011 میں 18 ویں ا?ئینی ترمیم کے بعد وفاقی حکومت کے بجٹ کے بعد یہ بتایا گیا کہ وفاقی حکومت نے این ا?ئی سی وی ڈی ، جے پی ایم سی، اور این ا?ئی سی ایچ کے فنڈز نہیں رکھے۔انہوں نے کہا کہ ہم نے ان اداروں کے لیے بجٹ کا انتظام کر رکھا ہے اورانہیں چلارہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ تنخواہ دار طبقہ بہت پریشانی کا شکار ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے ا?بپاشی کے شعبے میں 28 بلین روپے سے کم کر کے 22 بلین روپے کر دیا ہے۔
Live عمران خان سے متعلق تازہ ترین معلومات