پیپلزپارٹی نے گزشتہ دس سال کے دوران کراچی کے بجٹ میں کٹوتی کی جس کی وجہ سے کراچی تباہ ہوگیا

آئندہ مالی سال کے میزانیہ میں کل بجٹ کا ایک فیصد کراچی کے لئے مختص کیا گیا جو گزشتہ سال کے مقابلے میں ایک ارب 66 کروڑ کم ہے سندھ حکومت نے این ایف سی ایوارڈ میں 200 بلین کا اضافہ ہونے کے باوجود کراچی کے لئے ترقیاتی رقم میں کمی کردی وفاقی حکومت این ایف سی ایوارڈ سے براہ راست حصہ کراچی کو دے میئر کراچی وسیم اختر کی پریس کانفرنس

پیر 17 جون 2019 19:59

پیپلزپارٹی نے گزشتہ دس سال کے دوران کراچی کے بجٹ میں کٹوتی کی جس کی ..
کراچی۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 17 جون2019ء) میئر کراچی وسیم اختر نے کہا ہے کہ پیپلزپارٹی نے گزشتہ دس سال کے دوران کراچی کے بجٹ میں کٹوتی کی جس کی وجہ سے کراچی تباہ ہوگیا، آئندہ مالی سال کے میزانیہ میں کل بجٹ کا ایک فیصد کراچی کے لئے مختص کیا گیا جو گزشتہ سال کے مقابلے میں ایک ارب 66 کروڑ کم ہے، گزشتہ مالی سال بجٹ میں مختص رقم پوری نہ ملنے سے 135 منصوبے نامکمل رہ گئے، سندھ حکومت این ایف سی ایوارڈ میں کم رقم ملنے کا بہانہ بناتی ہے مگر ایوارڈ میں 200 بلین کا اضافہ ہونے کے باوجود کراچی کے لئے ترقیاتی رقم کم کی جا رہی ہے، وفاقی حکومت این ایف سی ایوارڈ سے براہ راست حصہ کراچی کو دے جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان کراچی کے حوالے سے سوموٹو ایکشن لیں، کراچی سے ٹیکسز کی مد میں 450 ارب روپے وصول ہوتے ہیں چند ارب روپے بھی خرچ نہیں ہوتے، آکٹرائے کی مد میں 6 ارب روپے سالانہ کٹوتی ہوتی ہے اب سندھ حکومت بلدیہ عظمیٰ کراچی کو ختم کرنا چاہتی ہے۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار انہوں نے پیر کو پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر ڈپٹی میئر کراچی سید ارشد حسن، چیئرمین بلدیہ وسطی ریحان ہاشمی، چیئرمین بلدیہ شرقی معید انور، چیئرمین بلدیہ کورنگی نیئر رضا اور چیئرمین بلدیہ غربی اظہار احمد خان بھی موجود تھے۔ میئر کراچی نے کہا کہ حکومت سندھ نے رواں مالی سال 1 کھرب 21 ارب روپے کے میزانیے میں کراچی میگا منصوبوں کے لئے 1.71 ارب روپے مختص کئے ہیں جو کل بجٹ کا تقریباً ایک فیصد ہے جبکہ بلدیہ عظمیٰ کراچی کے سالانہ ترقیاتی پروگرام میں گزشتہ سال کے مقابلے میں 1.66 ارب روپے کم مختص کئے گئے ہیں۔

گزشتہ سال سالانہ ترقیاتی پروگرام میں مختص رقم کا چوتھا کوارٹر نہیں دیا گیا جس کی وجہ سے 135 منصوبے مکمل ہونے سے رہ گئے۔ حکومت سندھ کراچی کے ترقیاتی منصوبوں کی رقم کم کرنے کا این ایف سی میں کمی کا بہانہ بناتی ہے حالانکہ این ایف سی ایوارڈ کے 600 ارب روپے میں اضافہ کرکے 800 ارب روپے کردیا گیا ہے۔کراچی سے پراپرٹی ٹیکسز، بیٹرمنٹ ٹیکسز، ہوٹل سیکٹر سے 450 ارب روپے وصول کئے جاتے ہیں۔

یہ رقم کراچی پر لگنی چاہئے، آکٹرائے کی مد میں 6 ارب روپے سے زائد سالانہ بلا وجہ کاٹے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی فائدہ اٹھانے کے لئے تنخواہ بڑھا دی جاتی ہے مگر اس کا پیسہ نہیں دیا جاتا اور ہمیں اپنی ریکوری سے تنخواہیں پوری کرنی پڑتی ہیں، اس بار بھی ملازمین کی تنخواہوں میں حالیہ اضافے سے بلدیہ عظمیٰ کراچی کو سالانہ 76 کروڑ روپے کا اضافی بوجھ برداشت کرنا ہوگا، وفاقی حکومت سے درخواست کروں گا کہ این ایف سی ایوارڈ میں سے کراچی کا حصہ براہ راست بلدیہ عظمیٰ کراچی کو دیا جائے کیونکہ سندھ حکومت ہمیں یہ پیسے نہیں دیتی،بلدیہ عظمیٰ کراچی کے ساتھ ہر ایلوکیشن میں نصف رقم کاٹ لی جاتی ہے، کراچی کا یہ حق ہے کہ جو پیسہ یہاں جمع کیا جا رہا ہے اسے شہر کے مسائل حل کرنے پر خرچ کیا جائے ، وفاقی حکومت سے بھی درخواست ہے کہ کراچی کے مسائل کو غیر معمولی اہمیت دی جائے، طویل عرصے سے سندھ اور وفاقی حکومت کو صورتحال کی بہتری کے لئے خطوط لکھ رہے ہیں لیکن بات آگے نہیں بڑھتی، آج تک ضلعی فنانس کمیشن کی کوئی میٹنگ نہیں بلوائی گئی نہ ہی اضلاع میں وسائل کی تقسیم کا کوئی فارمولا بنایا گیا ہے، آئین کا آرٹیکل 48-A واضح طور پر وسائل کی نچلی سطح پر تقسیم کے لئے کہتا ہے مگر سندھ حکومت آئین کی مسلسل خلاف ورزی کر رہی ہے حالانکہ میگا پروجیکٹس سندھ حکومت نہیں کرسکتی ، ہمیں خدشہ ہے کہ کراچی کے پروجیکٹ کے لئے رکھے گئے 1 ارب 66کروڑ روپے بھی اسی طرح خرچ کئے جائیں گے، گزشتہ تین سال کے دوران پراونشل اے ڈی پی میں کراچی کا کوئی پروجیکٹ نہیں رکھا گیا اور ہمارے دی گئیں تمام اسکیمیں مسترد کردی گئیں۔

انہوں نے اس امر پر بھی تشویش کا اظہار کیا کہ کراچی میں مجرمانہ سرگرمیاں اور اسٹریٹ کرائمز میں غیرمعمولی اضافہ ہوگیا ہے جبکہ سندھ میں ایڈز کا مرض تیزی سے پھیل رہا ہے جو سندھ حکومت کے ناکام ہونے کا ثبوت ہے، کراچی کے عوام ان معاملات پر آواز بلند کریں کیونکہ سندھ حکومت کو کراچی کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے کراچی کے مسائل کے حل کے لئے وفاقی حکومت کے ساتھ معاہدہ کیا تھا لیکن اس حوالے سے جو طریقہ کار اپنایا گیا اس سے ہم مطمئن نہیں۔