سینٹ کی قائمہ کمیٹی دفاعی پیداوار نے اتفاق رائے سے ایچ آئی ٹی ترمیمی بل میں دو ترامیم کو منظور کرلیا

بدھ 19 جون 2019 16:23

سینٹ کی قائمہ کمیٹی دفاعی پیداوار نے اتفاق رائے سے ایچ آئی ٹی ترمیمی ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 19 جون2019ء) سینٹ کی قائمہ کمیٹی دفاعی پیداوار کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم کی زیر صدارت کمیٹی نے ہیوی انڈسٹریز ٹیکسلا، پاکستان آرڈیننس فیکٹری واہ، براس مل اورملٹری وہیکل ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ اسٹیبلشمنٹ سمیت دیگر دفاعی پیداواری ادارں کی پاکستان کی تینوں مسلح افواج کی دفاعی ضروریات پوری کرنے اور اضافی پیداوارکی کمرشل بنیادوں پر استعمال پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے سفارش کی ہے کہ جیسے میزائل نظام، سپر مشاق طیاروں، جے ایف تھنڈرز کے حوالے سے خود کفالت حاصل کی گئی ہے اسی طرح مسلح افواج کی معمول کی نقل و حرکت اور سرحدوں پر تعیناتی کے لئے استعمال ہونے والی گاڑیوں کی مینوفیکچرنگ میں بھی خودکفالت حاصل کرنے کی کوشش کی جائے،کمیٹی نے اتفاق رائے سے ایچ آئی ٹی ترمیمی بل میں دو ترامیم کو منظور کرلیا،کمیٹی نے دفاعی پیداواری اداروں کو ہدایت دی کہ اپنے اپنے ہنگامی پلان بھی ترتیب دیں تا کہ کسی بھی ہنگامی صورتحال سے بہتر انداز میں نمٹا جائے ،کمیٹی نے ہدایت دی کہ گوادر شپ یارڈ کے قیام کے لئے کوششیں مزید تیز کی جائیں تا کہ مستقبل کی ضروریات کو بہتر انداز سے پورا کیا جاسکے۔

(جاری ہے)

بدھ کو سینٹ کی قائمہ کمیٹی دفاعی پیداوار کا اجلاس پیپس ہال میں منعقد ہوا۔ سیکرٹری وزارت دفاعی پیداوار لیفٹیننٹ جنرل (ر) اعجاز احمد، پاکستان آرڈیننس فیکٹریز کے نمائندے عبدالعزیز، واہ براس مل کے سی ای او شاہد محمود، ایم وی آر ڈی، این آر ٹی سی، ایچ آئی ٹی کے حکام ، کمیٹی کے اراکین مشاہد حسین سید، پرویز رشید، نعمان وزیر، نزہت صادق سمیت وزارت دفاعی پیداوار کے حکام اجلاس میں شریک تھے۔

ہیوی انڈسٹریز ٹیکسلا(ایچ آئی ٹی ) کے حکام نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ ہیوی انڈسٹریز ٹیکسلا دستیاب پیداواری صلاحیت کی مارکیٹ ایبل مصنوعات تیار کر رہی ہے۔ ایچ آئی ٹی حکام نے بتایا کہ چینی حکام نے ہمارا سیٹ اپ دیکھ کر ریل گاڑی کی مسافر کوچز اور فوجی ٹرک بنانے کی بات کی، ان سے اس بات پر معذرت کی کہ قواعد اور قانون اس بات کی اجازت نہیں دیتا۔

انہوں نے کمیٹی نے بتایا کہ ایچ آئی ٹی کے ان منصوبوں کیلئے نجی شعبے کے لوگ لئے جائیں گے، اس میں بہت محدود افرادی قوت ایچ آئی ٹی کی استعمال کی جائے گی۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ مجوزہ کمپنی دفاعی صنعت کی دستیاب فسیلٹیز کا استعمال کرکے کمرشل مصنوعات تیار کرسکے گی،کارپوریٹ ادارہ بننے سے ان پر پیپرا رولز کا اطلاق نہیں ہوگا۔ سینیٹر نعمان وزیر نے کہا کہ جب نئے قواعد کے تحت کمرشل کمپنی بنے گی تو وہ کمپنیز ایکٹ 2017ء کے مطابق ایس ای سی پی کے انڈر کام کرے گی،کمپنیز ایکٹ 2017ء کے تحت بورڈ کے امور میں وزارت کا نمائندہ ہوگا جو معاملات میں مداخلت بھی کرے گا، سرکاری فنڈز کے استعمال پر آپ کا آڈٹ بھی ہوگا، دیگر لوازمات بھی پورے کرنے ہوں گے۔

کمیٹی نے سیر حاصل بحث کے بعد ایچ آئی ٹی بورڈ قانون 1997ء میں مجوزہ ترامیم 2019ء کی متفقہ طور پر منظوری دیدی۔کمیٹی کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم نے کہا کہ ان منصوبوں کا مقصد اپنی ضروریات پورا کرنا ہے، تاکہ قومی خزانے پر بوجھ کم ہو۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان جے ایف 17 طیارے سمیت اعلی پائے کا دفاعی سازوسامان بناکر اربوں ڈالر کا زر مبادلہ بچارہاہے حالانکہ بہت سا دفاعی سامان کمرشل ادارے بھی بنانے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔

قومی ریڈیو مواصلات کارپوریشن( این آر ٹی سی) حکام نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ این آر ٹی سی کی عالمی معیار کی مصنوعات نے کئی اسناد حاصل کیں، ادارہ اکادمی ربط پر یقین رکھتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ3.7 جی پی اے حاصل کرنے والے قابل طلباء و طالبات کو فورا روزگار کی فراہمی یقینی بنائی جا رہی ہے۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ این آر ٹی سی نے سری لنکن فوج کو جیمز فراہم کر رہے ہیں، این آر ٹی سی جراف ریڈارز میں جدت، زمینی ریڈار نظام، ربوٹکس، کواڈ کاپٹرز اور دیگر مصنوعات بنا رہے ہیں، تحقیق و ترقی پر توجہ مرکوز ہے، مزید جدت لا رہے ہیں،مائیکرو ویو، ایچ ایف ریڈیو، الیکٹرانک وار فیئر نظام پر کام کر رہے ہیں۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ زینب کیس میں بھی این آر ٹی سی نے حساس آلات سے قانون کی مدد کی، این آر ٹی سی گاڑیوں کے جیمرز، کمپیوٹرائزڈ نمبر پلیٹس سمیت دیگر منصوبے جاری ہیں، اب تک این آر ٹی سی نے 6 ارب 89 کروڑ کے آلات فروخت کیے، این آر ٹی سی نے 1 ارب 67 کروڑ 20 لاکھ روپے کا منافع کمایا۔ سینیٹر نعمان وزیر نے اس موقع پر کہا کہ اسلام آباد سیف سٹی کیلئے چین کو 13 ارب روپے ادا کیے گئے، کیا یہ کام این آر ٹی سی کو نہیں دیا جا سکتا تھا، ’’انکار کا پہلا حق‘‘ این آر ٹی سی یا ادارے کے پاس ہونا چاہیے۔

سیکرٹری دفاعی پیداوار نے کمیٹی کو بتایا کہ بلٹ پروف جیکٹس، ملک میں بنتی ہیں لیکن صوبے باہر سے لیتے رہے، خیبر پختونخوا نے پولیس کیلئے بلٹ پروف جیکٹس باہر سے خریدیں، خریدی گئیں جیکٹس سے گولیاں گزر گئیں جو نہایت تکلیف دہ تھا لیکن اب بلٹ پروف جیکٹس ملکی اداروں سے خریدنے پر معاملات بہتر ہوئے،ایسا سلسلہ ہو کہ ملک میں تیار کردہ مصنوعات خریدی جائیں۔

چیئرمین کمیٹی لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم نے اس موقع پر کہا کہ یہ معاملہ پہلے ہی حکومت کے علم میں لایا جاچکا ہے کمیٹی نے سفارش کر رکھی ہے،کمیٹی کی سفارش پر ہی وفاقی کابینہ نے اس کی باقاعدہ منظوری دیدی ہے اب اس پر عمل درآمد کیلئے کوششیں کی جائیں گی۔ ایم وی آر ڈی حکام نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ پاک بھارت 1965ء اور 1971ء کی جنگوں میں لگنے والی پابندیوں کے بعد اس جانب پیش رفت کی، ملٹری وہیکلز کی عصر حاضر کے مطابق اپ گریڈیشن کرتے اور ریسرچ پر توجہ مرکوز ہے۔

ملٹری وہیکلز کی تیاری کرکے مسلح افواج کی ضروریات پوری کررہے ہیں، آرمی اور ائیر فورس کے ڈرائیونگ اور فلائنگ سیمولیٹر تیار کرچکے ہیں، ادارہ مسلح افواج کے 413 منصوبے مکمل کرچکا ہے، 21 پر کام جاری ہے، اس وقت 17 منصوبوں پر ریسرچ کی جارہی ہے، ادارے کی کوششوں سے 10 ارب روپے سے زائد کی بچت ممکن ہوئی، اگر سامان درامد کیا جاتا تو 15 ارب خرچ ہوتے، مقامی طور پر 5 ارب میں سامان و آلات تیار کئے گئے۔

سیکرٹری دفاعی پیداوار نے اس موقع پر کمیٹی کو بتایا کہ پورے پاکستان میں ملٹری وہیکلز کے انجن بنانے کی صلاحیت نہیں، ملٹری وہیکلز کے انجن کی تیاری کا کام صرف ایک ملک نے اپنے ہاتھ میں رکھاہواہے۔ انہوں نے کہا کہ ملٹری وہیکلز کے تحقیقی ادارے میں گاڑیاں اور آلات لاکر ان کو اسمبل کیا جارہاہے۔کمیٹی کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم نے کہا کہ یہ بات افسوسناک ہے کہ ہم کوئی ملٹری وہیکل پاکستان نہیں بناپائے، ہمیں کم از کم ملٹری گاڑیوں کی اسمبلنگ کے امور کو انجام دینے میں مکمل مہارت حاصل کرلینی چاہئے۔

انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا پاکستان میں ہم کوئی اپنا ٹرک، جیپ یا کوئی گاڑی بن رہی ہے۔ جس پر سیکرٹری دفاعی پیداوار نے بتایا کہ پاکستان آٹو موبیل کارپوریشن اور ایم وی آر ڈی نے مشترکہ منصوبہ شروع کیا، یہ ’’یعسوب ٹرک‘‘ کا مشترکہ منصوبہ 80 کروڑ روپے کا تھا، یہ منصوبہ پاکستان آٹو موبیل کے باعث نیب کے پاس چلا گیا، یہی وجہ تھی کہ پاک آرمی کو 500 یعسوب ٹرک فراہم کیے گئے اور منصوبہ بند ہو گیا۔

کمیٹی کے چیئرمین عبدالقیوم نے کہا کہ یہ بہت افسوسناک ہے، ہماری اپنی گاڑیاں ہونی چاہیں،ہم جے ایف 17 تھنڈر بنا سکتے ہیں تو اپنی گاڑیوں کی اسمبلی لائن بھی ہونی چاہیے۔ سیکرٹری دفاعی پیداوار نے گوادر شپ یارڈ پر بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ گوادر شپ یارڈ پر بلوچستان حکومت سے اراضی کے حصول کے ایم او یو پر دستخط ہونا ہیں، صوبائی حکومت سے اراضی کے معاملات طے ہیں، صرف اس کا ٹیک اوور کرنا باقی ہے، جیسے ہی معاہدہ طے پاجائے گا اراضی کا کنٹرول لیکر کام شروع کردیں گے۔

کمیٹی کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنر ل(ر) عبدالقیوم نے کہا کہ منصوبے پر کام کی رفتار تیز تر کی جائے۔ واہ براس مل حکام نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ انجنیئرنگ ڈیویلپمنٹ بورڈ کے ساتھ براس مصنوعات کی فہرست فراہم کی،جس کے بعد ہم نے نجی شعبے سے بات چیت کی اور آڈر حاصل کر لیا، اب کراچی، لاہور، حسن ابدال کی 4 نجی صنعتوں کی ضروریات پوری کریں گے۔

چیئرمین کمیٹی نے استفسار کیا کہ براس کی 10 ہزار میٹرک ٹن کھپت کم ہو کر 1 ہزار رہ گئی، یہ کیوں۔ جس پر براس مل حکام نے بتایا کہ براس کی کھپت، طلب کی کمی سے کم ہوئی۔سینیٹر نعمان علی نے اس موقع پر کہا کہ براس کی کھپت کیلئے نجی کمپنیوں سے اشتراک کریں، مقامی منڈی دیکھیں۔ چیئرمین کمیٹی لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم نے کہا کہ ملکی دفاعی صنعت تمام تر مشکلات کے باوجود بہترین کام کر رہی ہیں، قائمہ کمیٹی، دفاعی صنعت کی غیر معمولی ترقی، جدت چاہتی ہے ۔