زیرو ریٹنگ ختم کرنے سے ایکسپورٹر اور معیشت دونوں کمزور ہو نگے: میاں زاہد حسین

برآمدات ،روزگار اورشرح نمو کے علاوہ فی کس آمدنی میں کمی ہو گی، ٹیکس افسران کے اختیارات بڑھانے سے شکایات اور مشکلات بڑھیں گی

بدھ 19 جون 2019 17:41

زیرو ریٹنگ ختم کرنے سے ایکسپورٹر اور معیشت دونوں کمزور ہو نگے: میاں ..
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 19 جون2019ء) پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فور م وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر ،بزنس مین پینل کے سینئر وائس چےئر مین اور سابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ پانچ برآمدی شعبوں کی لئے زیرو ریٹنگ کی سہولت ختم کرنے سے جہاں برآمدات، روزگار اور شرح نمو پر فرق پڑے گا وہیں فی کس آمدنی بھی متاثر ہو گی۔

معیشت سکڑنے سے تین سال میں فی کس آمدنی میں تین سو ڈالر تک کمی ممکن ہے جبکہ انہی تین سال کے دوران خطے کے حریف ممالک میں فی کس آمدنی میں تین سو ڈالر تک اضافہ کا امکان ہے۔ میاں زاہد حسین نے بز نس کمیونٹی سے گفتگو میں کہا کہ زیرو ریٹنگ کے خاتمہ سے بہت سے چیلنجر سامنے آئیں گے جس میں برآمدات کا 21ارب ڈالر تک گرنا اورچھوٹی برآمدی صنعتوں کی بندش شامل ہے ۔

(جاری ہے)

دوسری طرف کئی صنعتیں اپنی بقاء کے لئے مسابقتی صلاحیت بھی بڑھا سکتی ہیں جس سے سبسڈیوں اور بیل آوٹ پیکجوں پر انکا انحصار ختم ہو جائے گا۔انھوں نے کہا کہ حکومت پانچ برآمدی سیکٹرز ٹیکسٹائل، لیدر، کارپٹ، سرجیکل آلات اور کھیلوں کے سامان کے لیے زیرو ریٹنگ کی سہولت بحال کرنے پر غور کرے کیونکہ زیادہ تر برآمدات اور لاکھوں کا روزگار انہی سے وابستہ ہیں اور اس سہولت کی واپسی کے فیصلے سے کاروباری برادری میں بے چینی اور
ما یوسی پیدا ہوئی ہے۔

زیروریٹنگ کی سہولت کے خاتمے سے حکومت کے محاصل کم ہونگے اور ادائیگیوں کا توازن بگڑجائے گا۔اگر زیرو ریٹنگ کی سہولت بحال نہیں کرنی توحکومت ایکسپورٹرز کیلئے قابل ِ قبول ریفنڈز کی ادائیگیوں کا خودکار سسٹم متعارف کرائے تاکہ برآمد کنندگان کے مسائل میں کمی آئے۔2005 میں جب زیرو ریٹنگ کی سہولت متعارف کرائی گئی تو برآمدات میں اضافہ ہوا تھا جبکہ برآمدکنندگان کے مسائل کافی حد تک حل ہوگئے تھے جبکہ سہولت کے خاتمہ سے یہ مسائل زیادہ شدت سے ابھر کر سامنے آئیں گے اور روپے کی قدر میں تنزلی کے فوائدبھی ختم ہو
 جا ئینگے ۔

حکومت کاروباری مشکلات، بڑھتی ہوئی کاروباری لاگت اور لا تعداد محاصل کا نوٹس لے جس نے تاجروں اور صنعتکاروں کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔میاں زاہد حسین کے مطابق فنانس بل کا بغور مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ نئے ٹیکس گزار تلاش کرنے کیلئے جہاں خرید و فروخت پرCNICکی شرط عائد کی گئی ہے وہیں موجودہ ٹیکس گزاروں پربھی بوجھ بڑھانے کو ترجیح دی گئی ہے جبکہ ٹیکس افسران کے اضافی اختیارات چھاپوں اور بار بارکے آڈٹ سے ٹیکس دھندگان میں عدم تحفظ اور شکایات بڑھ سکتی ہیں جس سے نمٹنے کا مکینزم بنایا جائے تاکہ ٹیکس حکام اور کاروباری برادری کے مابین خلیج وسیع نہ ہو۔