بلدیہ عظمی کراچی کا آئندہ مالی سال کا میزانیہ ترتیب دینے میں مشکلات ہیں، وسیم اختر

حکومت نے ضلعی ترقیاتی پروگرام میں گزشتہ سال کے مقابلے میں 1600 ملین کم مختص کئے ہیں، رواں سال چوتھا کوارٹر نہیں ملا اس صورتحال میں شہر کی ترقی کا عمل بری طرح متاثر ہو گا،میئرکراچی کا اجلاس سے خطاب

بدھ 19 جون 2019 22:20

بلدیہ عظمی کراچی کا آئندہ مالی سال کا میزانیہ ترتیب دینے میں مشکلات ..
کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 19 جون2019ء) میئر کراچی وسیم اختر نے کہا ہے کہ بلدیہ عظمی کراچی کا آئندہ مالی سال کا میزانیہ ترتیب دینے میں مشکلات ہیں، حکومت نے ضلعی ترقیاتی پروگرام میں گزشتہ سال کے مقابلے میں 1600 ملین کم مختص کئے ہیں۔ رواں سال چوتھا کوارٹر نہیں ملا اس صورتحال میں شہر کی ترقی کا عمل بری طرح متاثر ہو گا۔بلدیہ عظمیٰ کراچی کے غیر ترقیاتی اخراجات کو مزید کم کرنے پر غور کیا جائے۔

تمام محکمہ جاتی سربراہان اپنے ماتحت اداروں کے بجلی کے بل بر وقت ادا کریں آئندہ بل کی وقت پر ادائیگی نہ کرنے پر بجلی منقطع ہوئی تو متعلقہ محکمے کا سربراہ ذمہ دار ہو گا۔ لانڈھی مذبحہ خانہ کی بجلی کا بل ایگریمنٹ کے تحت متعلقہ کنٹریکٹر ادا کرے گا اس کی اطلاع ’’کے الیکٹرک‘‘ کو دی جائے۔

(جاری ہے)

ہر ذیلی ادارے کے الگ سے میٹرز لگا دیئے جائیں۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے بدھ کو کمیٹی روم میں آئندہ مالی سال کے میزانیہ کی تجاویز پر غور کرنے کے لئے منعقد محکمہ جاتی سربراہان کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا، اس موقع پر ڈپٹی میئر سید ارشد حسن، میٹروپولیٹن کمشنر ڈاکٹر سید سیف الرحمن، مشیر مالیات ریاض کھتری اور بلدیہ عظمیٰ کراچی کے فنانس سمیت تمام محکمہ جاتی سربراہان موجود تھے۔

میئر کراچی وسیم اختر نے کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ کے ایم سی کے وسائل کا بہتر استعمال کیا جائے اور غیر ضروری اخراجات کو کم سے کم کیا جائے۔ بلدیہ عظمیٰ کراچی آئندہ کسی رہائشی کوارٹر کا بجلی کا بل ادا نہیں کرے گی۔ سب سے زیادہ اخراجات بجلی کے بلوں پر ہیں رہائشی کوارٹرز میں بجلی کی غیرضروری اور غیر قانونی استعمال کی ادائیگی بلدیہ عظمیٰ کراچی کو کرنا پڑتی ہے۔

چیف انجینئر کے الیکٹرک انیس قائم خانی نے اجلاس کو بتایا کہ رہائشی زون میں بجلی کا استعمال صحیح نہیں اس پر فوری توجہ کی ضرورت ہے۔ چیف فائر آفیسر تحسین صدیقی نے بتایا کہ فائر بریگیڈ کے رہائشی کوارٹرز سے 350 ایئرکنڈیشن اتارے گئے ہیں۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ بجلی کے غیر قانونی استعمال کی وجہ سے کے ایم سی کو کروڑوں روپے ماہانہ اضافی بل ادا کرنا پڑتا ہے۔

میئر کراچی وسیم اختر نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلدیہ عظمیٰ کراچی کی مالی پوزیشن بہتر نہیں۔ اب چیزوں کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔اسپتالوں کے ساتھ رہائشی فلیٹوں سمیت کے ایم سی کے تمام رہائشی کوارٹرز کے لئے علیحدہ میٹر نصب کئے جائیں۔ کے ایم سی کے رہائشی زون اور کوارٹرز کے سروے اور پالیسی بنانے کے لئے سینئر ڈائریکٹر ریحان خان کی سربراہی میں تین رکنی کمیٹی قائم کی گئی جو ایک ہفتے میں رپورٹ پیش کرے گی کہ بلدیہ عظمیٰ کراچی کے کل کتنے رہائشی زون اور کوارٹرز ہیں اور ان میں کون کون لوگ رہائش پذیر ہیں۔

ان تمام کو ہدایت کی جائے گی کہ وہ اپنے کوارٹر میں بجلی کا میٹر لگوائیں، ہدایت پر عملدرآمد نہ کرنے والے ملازم کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔ میئر کراچی نے کہا کہ آئندہ مالی سال کا میزانیہ ترتیب دینے میں مشکلات ہیں کیونکہ حکومت نے ضلعی ترقیاتی پروگرام میں گزشتہ سال کے مقابلے میں 1600 ملین روپے کم مختص کئے ہیں جبکہ رواں مالی سال کے میزانیہ میں مختص اے ڈی پی کا چوتھا کوارٹر نہ ملنے سے 135 ترقیاتی منصوبے اس سال مکمل ہونے سے رہ گئے۔

جاری منصوبوں کو مکمل کرنا مشکل ہو رہا ہے تو نئے منصوبے کیسے شروع کئے جا سکتے ہیں۔اس صورتحال میں شہر کی ترقی کا عمل بری طرح متاثر ہو گا۔ صوبائی حکومت اس پر غور کرے کہ شہر کی ترقی کا عمل رکنے سے صوبے اور ملک کا نقصان ہو گا۔انہوں نے کہا کہ کوشش کی جائے کہ آئندہ مالی سال کے میزانیے میں جو منصوبے شامل ہوں وہ انتہائی ضروری اور ان سے شہریوں کو فوری سہولت میسر آئے، شہر کا پورا انفراسٹرکچر ہی تباہ ہو چکا جس کی بحالی کے لئے اربوں روپے کے بڑے پیکیج کی ضرورت ہے تاہم شہریوں کو فوری سہولت فراہم کرنے کے لئے ہم سے جو ممکن ہوسکا وہ کریں گے۔

میئر کراچی نے کہا کہ ہم نے بلدیہ عظمیٰ کراچی کے تمام غیر ضروری اخراجات کو کم سے کم کرنے کی کوشش کی ہے اور اب اس رقم کو شہر کے مسائل حل کرنے پر خرچ کریں گے۔ اسپتالوں کی صورت حال کو بہتر بنانے پر خصوصی توجہ دی جائے۔