سابقہ فاٹا اور پاٹا میں صنعتکاری کے عمل کوشدید نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے:میاں زاہد حسین

بجٹ میں فیڈرل ایکسائیزڈیوٹی عائد کرنے سے سرمایہ کاری ضائع ، بے روزگاری بڑھے گی، فیصلے سے شورش زدہ علاقوں میں امن بحال کرنے کی کوششوں کو دھچکا لگے گا

جمعرات 20 جون 2019 18:25

سابقہ فاٹا اور پاٹا میں صنعتکاری کے عمل کوشدید نقصان پہنچنے کا خطرہ ..
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 20 جون2019ء) پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فور م وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر ،بزنس مین پینل کے سینئر وائس چےئر مین اور سابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ فنانس بل میں دہشت گردی سے بری طرح متاثر ہونے والے سابقہ فاٹا اور پاٹا میں قائم بعض صنعتوں پر فیڈرل ایکسائیز ڈیوٹی عائدکرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس سے انکی بندش کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔

اس فیصلے کے سنگین نتائج برآمد ہونگے اس لئے ملکی مفاد میں اسے فوری طور پر واپس لیا جائے اور سابقہ اسٹیٹس بحال کیا جائے۔ میاں زاہد حسین نے بز نس کمیونٹی سے گفتگو میں کہا کہ وفاقی حکومت نے بجٹ میں اپنے وعدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایس آر او نمبر 1212(1)/208کومنسوخ کرتے ہوئے فاٹا اور پاٹا میں قائم سٹیل اور گھی کی صنعتوں پر فیڈرل ایکسائیز ڈیوٹی عائد کر دی ہے جس سے اربوں روپے کی سرمایہ کاری خطرات سے دوچار ہو گئی ہے۔

(جاری ہے)

ان صنعتوں کی بندش سے ان علاقوں میں کی گئی سرمایہ کاری ضائع ہو جائے گی، مزید سرمایہ کاری کے امکانات ختم ہو جائیں گے جبکہ مقامی افراد بڑی تعداد میں بے روزگار ہو جائیں گے جس سے بے چینی اور دہشت گردی کو ہوا مل سکتی ہے۔ دہشت گردی سے متاثرہ علاقوں میں روزگار کے مواقع پہلے ہی بہت کم ہیں اور مزید افراد کو بے روزگار کرنے سے شورش زدہ علاقوں میں امن و امان قائم کرنے کے لئے کی گئی کوششیں، استعمال شدہ وسائل اور قربانیاں ضائع ہو سکتی ہیں۔

دہشت گردی پر قابو پانے کے لئے فوج نے آپریشن ضرب عضب اور آپریشن رد الفساد کے دوران بھاری جانی اور مالی قربانیاں دی ہیں جبکہ اس سے ملکی معیشت کو کئی سو ارب ڈالر کا نقصان بھی پہنچا ہے۔اب کئی دشمن ممالک نے ان علاقوں میں ایک نئی تحریک اٹھا دی ہے جو ملک کے لئے خطرہ بن رہی ہے ۔ان چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لئے صرف فوجی کاروائی پر انحصار نہ کیا جائے بلکہ معاشی، تجارتی و صنعتی میدانوں میں بھی مثبت اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ روزگار کے مواقع بڑھیں اور منفی نظریات کاانسداد ممکن ہو اس لئے حکومت ٹیکس بڑھانے کے لئے اقدامات کرنے سے قبل اس علاقے کی نازک صورتحال کو بھی مد نظر رکھے اور جو علاقے وفاقی ٹیکسوں سے مستثنیٰ تھے انکا استثنیٰ برقرار رکھا جائے۔

ان علاقوں کو پہلے0 3 جون 2023 تک وفاقی ٹیکسوں سے استثنیٰ دینے کا فیصلہ کیا جا چکا تھا تو اس میں تبدیلی نہیں کرنی چاہئے تھی۔ ایک طرف وفاقی حکومت نے ان علاقوں کے لئے صرف 152 ارب روپے مختص کرنے اور مختلف سہولتیں دینے کی تجویز دی ہے اور دوسری طرف ٹیکس عائد کر کے صنعتی عمل کو دھچکا پہنچایا جا رہا ہے جو ان علاقوں کو قومی دھارے میں لانے کے دعووں کی خلاف ورزی اور سمجھ سے بالا تر ہے۔