قرضوں سے بچنے کا واحد راستہ زراعت کو ترقی دینا ہے،

ڈیم نہ بنا کر مجرمانہ غفلت کی گئی، تعلیم کی کمی اور آبادی میں اضافہ صحت سمیت دیگر مسائل کی بڑی وجہ ہیں، گیس‘ بجلی‘ ادویات سمیت روزمرہ اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ نہ کیا جائے، صرف اپوزیشن کو کرپٹ کہا جارہا ہے پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی سید خورشید احمد شاہ کا بجٹ پر بحث کے دوران اظہار خیال

جمعہ 21 جون 2019 17:12

قرضوں سے بچنے کا واحد راستہ زراعت کو ترقی دینا ہے،
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 21 جون2019ء) پاکستان پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی سید خورشید احمد شاہ نے کہا ہے کہ آبادی میں اضافے کی وجہ سے تعلیم‘ صحت‘ زراعت اوردیگر شعبے شدید دبائو کا شکار ہیں‘ اگرچہ آبادی کا شعبہ صوبوں کے پاس ہے لیکن وفاقی بجٹ میں اس حوالے سے کوئی اقدامات نہیں اٹھائے گئے‘ قرضوں سے نجات کا واحد راستہ زرعی شعبے کو ترقی دے کر ہی نکالا جاسکتا ہے‘ پی ایس ڈی پی میں ڈیموں کی تعمیر کے لئے بجٹ کا 15 فیصد مختص کردیں تو ہم اس کے حق میں ووٹ دیں گے‘ جب سیاستدان عوام سے کئے گئے وعدے پورے نہیں کریں گے تو لوگوں کا ان سے اعتماد اٹھ جائے گا۔

جمعہ کو قومی اسمبلی میں بجٹ 2019-20ء پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے پیپلز پارٹی کے رہنما سید خورشید شاہ نے کہا بجٹ کی منظوری آئینی تقاضا ہے‘ یہ روایت رہی ہے کہ بجٹ کی اپوزیشن ہمیشہ مخالفت کرتی ہے‘ بعض اوقات ایسا بجٹ پیش ہوتا ہے کہ اپوزیشن کو مخالفت کرنا پڑتی ہے‘ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم حکومت کو حقیقت پر مبنی تجاویز دیں۔

(جاری ہے)

ہماری پوری کوشش ہوگی کہ ماحول کو ٹھیک رکھیں اور حقائق عوام تک پہنچیں۔

درحقیقت عوام کا ردعمل ہی بجٹ کی کامیابی اور ناکامی کا پیمانہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کی آبادی صحت‘ پانی‘ تعلیم سمیت زندگی کے تمام شعبوں پر اثرانداز ہوتی ہے۔ آبادی کا شعبہ صوبوں کے پاس ہے مگر وفاقی بجٹ میں ملک کے اس اہم مسئلے پر توجہ نہیں دی گئی۔ حکومت نے بجٹ سے پہلے عوام سے جو وعدے کئے تھے ان میں سے ایک بھی پورا نہیں کیا۔ سید خورشید شاہ نے کہا کہ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ ماضی کی حکومتوں نے ملک کن حالات میں ہمارے سپرد کیا۔

2008ء میں جب ہم برسراقتدار آئے مارشل لاء کی حکومت تھی اور ڈکٹیٹر برسراقتدار تھا وہ بے پناہ طاقت رکھتا تھا کسی کے سامنے جوابدہ نہیں تھا۔ عدالتوں نے بھی انہیں آئین میں ترمیم کے اختیار سمیت وردی میں برسراقتدار رہنے کی اجازت دے رکھی تھی۔ ملک میں دہشت گردی کا دور دورہ تھا‘ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید ہو چکی تھیں۔ اس ساری صورتحال کے باوجود ہم نے کسی سے گلہ نہیں کیا یہ کہا جاتا تھا کہ طالبان مارگلہ کی پہاڑیوں تک آچکے ہیں۔

سوات پر دہشت گردوں کا قبضہ تھا۔ حالات انتہائی خراب ہو چکے تھے اور 30 لاکھ افراد کو نقل مکانی کرنا پڑی۔ 2008ء میں عالمی سطح پر تیل کی قیمت 120 ڈالر فی بیرل تھی۔ ہم نے تیل کی قیمت 110 روپے سے نہیں بڑھائی۔ ڈالر 82 روپے کا تھا مگر ہم نے توازن برقرار رکھا۔ مختلف قسم کے چیلنجوں سے ریاست کو خطرہ تھا مگر اس ایوان اور جمہوریت نے ہمیں طاقت دی ہم گھبرائے نہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے کسان کو مضبوط کیا کیونکہ زراعت ملک کی ریڑھ کی ہڈی تھی ہم نے زرعی شعبہ کو سبسڈی دی اور ہماری زرعی شعبہ کی شرح نمو 13 فیصد تھی اور ہم ایکسپورٹ 25 ارب ڈالر تک لے گئے۔اس کے بعد دنیا کا ہم پر اعتماد بحال ہوا۔ ہم نے این ایف سی کیا جس سے ماضی کی حکومتیں گریزاں تھیں‘ تمام فیصلے اتفاق رائے سے کئے۔ ہم نے وفاقی اکائیوں کے مفادات کا اس لئے تحفظ کیا کیونکہ صوبے خوشحال نہیں ہوںگے تو ملک خوشحال نہیں ہوگا۔

ہم نے بلوچستان کو حقوق دیئے۔ سوات پر پرچم لہرایا۔ ڈکٹیٹر نے جس آئین کو تباہ کیا ہم نے اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے بحال کیا۔ ہم نے کسان کو خوشحال کیا جس سے ملک میں بیروزگاری میں کمی ہوئی۔ پنشن میں سو فیصد تک اضافہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ زراعت کو ترقی دیں گے تو ہمیں کسی سے قرضہ لینے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ پاکستان کے پاس قرضوں سے بچنے کا واحد راستہ یہی ہے۔

اس ایوان کے ہر رکن کا تعلق عوام کے ساتھ ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ڈیم نہ بنا کر مجرمانہ غفلت کی گئی۔ ڈیم کے نام پر سستی شہرت نے ہمیں نقصان پہنچایا ہے۔ گیارہ ارب ڈیم کے معاملے پر چندہ اکٹھا ہوا۔ دس ارب کے اشتہار چلا دیئے گئے۔ آج بھی پی ایس ڈی پی میں بجٹ کا 15 فیصد رکھ دیں‘ ہم حکومت کے ساتھ تعاون کریں گے۔ تعلیم کی کمی اور آبادی میں اضافہ صحت سمیت دیگر مسائل کی بڑی وجہ ہیں۔

اس بجٹ میں تعلیم کے لئے گزشتہ سال کے مقابلے میں 97 سے کم کرکے 77 ارب روپے مختص کئے گئے۔ افراط زر کی شرح 3.7 فیصد سے بڑھ کر 9 فیصد تک آگئی ہے۔ انہوں نے گیس‘ بجلی‘ ادویات سمیت روزمرہ اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ صرف اپوزیشن کو کرپٹ کہا جارہا ہے۔ انصاف سب کے لئے ہونا چاہیے۔ جب 50 لاکھ گھروں کی تعمیر کا اعلان ہوا تو ہمیں خوشی ہوئی کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے 90 لاکھ رجسٹرڈ لوگوں کو یہ گھر ملیں گے مگر جب پتہ چلا کہ یہ بھی 30 لاکھ کا ہوگا تو غریب آدمی یہ رقم کہاں سے دے گا۔

انہوں نے کہا کہ جب سیاستدان وعدے پورے نہیں کریں گے تو لوگوں کا ہم سے اعتماد اٹھ جائے گا۔ غلط بیانی سے قائم ہونے والی سیاسی جماعتیں تادیر قائم نہیں رہتیں۔ انہوں نے کہا کہ سیاستدان وہ ہے جو سولی پر چڑھ کر بھی سچ بولے۔