Live Updates

تحقیقات کریں کہ ڈیم فنڈ کے پیسے کس اکاؤنٹ میں رکھے گئے، خورشید شاہ

پی ایس ڈی پی پر 15 فیصد رکھ کر ڈیم بننے میں 10 سال لگیں گے،حکومت کو بنا بنایا پاکستان ملا ہے، پیپلز پارٹی نے حکومت سنبھالی تو نہیں کہا کیسے سب ٹھیک ہوگا، آمر صدر ہونے کے باوجود پارلیمانی حکومت تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھا،ڈکٹیٹر نے آئین تباہ کیا ہم نے بحال کیا ،زراعت کو فروغ دیں قرض لینے کی ضرورت نہیں پڑیگی،وزیراعظم نے عوام سے جتنے وعدے کیے ایک بھی پورا نہیں کیا، لیڈر کو عوام سے سوچ سمجھ کر وعدے کرنے چاہئیں، غلط بیانی سے ووٹ لینے سے جماعتیں ختم ہوجاتی ہیں، قومی اسمبلی میں ا ظہار خیال نوازشریف نے دہشت گردی ،لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کیا،اگر مشرف کیخلاف انکوائری ہوجاتی تو ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوتا، برجیس طاہر 0 میں بلوچستان کو سب سے زیادہ حصہ ملا،تین فیصد کم کرنے کی بات کی جا رہی ہے،اسلم بھوتانی کی این ایف سی میں صوبے کا حصہ کم کرنے کی مخالفت ہمیں لوٹوں کا گلہ کرنیوالے خیال کریں کہیں وہاںسے رانا ثنا سے لیکر اویس لغاری تک صفیں خالی نہ ہو جائیں ، زرتاج گل کا خواجہ آصف اور خورشید شاہ کو جواب عمران خان واحد نظریاتی لیڈر ہے جو دیوار کے پیچھے دیکھ سکتا ہے، زرتاج گل کے جملے پر اپوزیشن ارکان کا تنقیدی قہقہہ دس ماہ میں دس لاکھ لوگ بیروزگار،ْچالیس لاکھ غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے،وزیر خزانہ جتنے چاہیں بدلیں،مسئلہ سربراہ کا ہے، خرم دستگیر خان تحقیقاتی کمیشن بنانے پر وزیراعظم کا شکریہ ادا کرتی ہوں،کرپشن ثابت ہونے پر سخت سے سخت سزا دینی چاہیے ، شنیلا رتھ کا اظہار خیال

جمعہ 21 جون 2019 19:06

تحقیقات کریں کہ ڈیم فنڈ کے پیسے کس اکاؤنٹ میں رکھے گئے، خورشید شاہ
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 21 جون2019ء) پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ نے مطالبہ کیا ہے کہ تحقیقات کریں کہ ڈیم فنڈ کے پیسے کس اکاؤنٹ میں رکھے گئے، پی ایس ڈی پی پر 15 فیصد رکھ کر ڈیم بننے میں 10 سال لگیں گے،حکومت کو بنا بنایا پاکستان ملا ہے، پیپلز پارٹی نے حکومت سنبھالی تو نہیں کہا کیسے سب ٹھیک ہوگا، آمر صدر ہونے کے باوجود پارلیمانی حکومت تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھا،ڈکٹیٹر نے آئین تباہ کیا ہم نے بحال کیا ،زراعت کو فروغ دیں قرض لینے کی ضرورت نہیں پڑے گی،وزیراعظم عمران خان نے عوام سے جتنے وعدے کیے ایک وعدہ پورا نہیں کیا، لیڈر کو عوام سے سوچ سمجھ کر وعدے کرنے چاہیں، غلط بیانی سے ووٹ لینے سے جماعتیں ختم ہوجاتی ہیں۔

جمعہ کی نماز کے بعد قومی اسمبلی کااجلاس ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی زیر صدارت دوبار شروع ہو ا تو آئندہ مالی سال 2019-20پر بحث کی جارہی ۔

(جاری ہے)

بحث میں حصہ لیتے ہوئے خورشید شاہ نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے ڈالر کی قیمت کو برقرار رکھا تھا اور اس ان کے زمانے میں پاکستان میں زراعت کی ترقی کی شرح میں 13 فیصد اضافہ ہوا تھا۔انہوںنے کہاکہ خورشید شاہ نے کہا کہ حکومت جیسا بھی بجٹ پیش کرتی ہے اپوزیشن تسلیم نہیں کرتی، اپوزیشن کا حق ہے جو ملکی مفاد میں نہیں اس کی مخالفت کرے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کو بنا بنایا پاکستان ملا ہے، پیپلز پارٹی نے حکومت سنبھالی تو یہ نہیں کہا کہ کیسے سب ٹھیک ہوگا، آمر صدر ہونے کے باوجود پارلیمانی حکومت تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھا۔پیپلز پارٹی کے رہنما نے کہا کہ ڈکٹیٹر نے آئین تباہ کیا جبکہ ہم نے اسے بحال کیا، ہماری حکومت نے این ایف سی ایوارڈ کا اجرا کیا۔خورشید شاہ نے کہا کہ زراعت کو فروغ دیں قرض لینے کی ضرورت نہیں پڑے گی، خودکشی کرنے سے بچنے کے لیے زراعت کو فروغ دیں، زراعت سے تحفظ ملے گا، اس کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے۔

خورشید شاہ نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے ماضی میں اعلان کیا تھا کہ قرضہ نہیں لوں گا، پیٹرول ، گیس ، بجلی سستی کروں گا، میٹرو بس نہیں بناؤں گا، ڈالر مہنگا نہیں کروں گا، ہندوستان سے دوستی نہیں کروں گا،ٹیکس ایمنسٹی اسکیم نہیں دوں گا، آزاد امیدواروں کو نہیں لوں گا، سیکیورٹی اور پروٹوکول نہیں لوں گا، وزیراعظم کو لائبریری اور گورنر ہاؤس پر بلڈوزر چلاؤں گا، بیرون ملک دورے نہیں کروں گا، عام کمرشل فلائٹ میں جاؤں گا، ہیلی کاپٹر کے بجائے ہالینڈ کے وزیراعظم کی طرح سائیکل پر جاؤں گا، مختصر کابینہ بناؤں گا، جس پر الزام ہوگا اسے عہدہ نہیں دوں گا، جو حلقہ کہیں کھول دوں گا، عوام سے کبھی جھوٹ نہیں کہوں گا۔

اس دوران اپوزیشن اراکین خورشید شاہ کی جانب سے بتائے جانے والے نکات پر تنقیدی جواب دیتے رہے۔انہوں نے کہا کہ مجھے دکھ ہوتا ہے کہ ہم نے ڈیم، ڈیم کرکے ڈیم کو سیاست بنادیا، ہمارے چیف جسٹس میدان میں نکل آئے کہ ڈیم بنائیں ملک بچائیں، بالکل بنائیں۔خورشید شاہ نے کہا کہ پاکستان میں ڈیم نہ بنا کر مجرمانہ غفلت ہوئی ہے، کیوں نہیں بنا ڈیم کس لیے نہیں بنا اس کے پیچھے کیا وجوہات جاننے کے لیے تیار ہیں لیکن ہمیں روکا گیا۔

انہوںنے کہاکہ ڈیم کا قصہ چلا، اشتہار چلائے گئے اور اب بھی چل رہے ہیں کہ چندہ دو، کتنا پیسہ ملا، لندن گئے وہاں کیا حشر ہوا کہ ڈیم بنے گا۔رہنما پی پی پی نے کہا کہ میں نے اس وقت کے چیف جسٹس سے کہا تھا کہ اگر آپ سنجیدہ ہیں تو حکومت کو بلائیں اور انہیں کہیں کہ بجٹ، منی بجٹ اجلاس کریں اور پی ایس ڈی پی پر ڈیم کے لیے جی ڈی پی کا 15 فیصد رکھ دیں تو ڈیم بنے گا۔

خورشید شاہ نے کہا کہ 10 ارب روپے جمع کیے گئے 11 ارب روپے اشتہارات میں خرچ ہوگئے، تحقیقات کریں کہ ڈیم فنڈ کے پیسے کس اکاؤنٹ میں رکھے گئے۔انہوں نے کہا کہ ڈیم بننا چاہیے اگر آج بھی ڈیم پر 15 فیصد رکھتے ہیں تو ڈیم بن سکتا ہے کیونکہ ہماری ضرورت ہے، یہ پی ٹی آئی کا فیصلہ نہیں، عوام کا اس پارلیمنٹ کا فیصلہ ہوگا۔خورشید شاہ نے کہا کہ پی ایس ڈی پی پر 15 فیصد رکھ کر ڈیم بننے میں 10 سال لگیں گے۔

پیپلز پارٹی کے رہنما نے کہا کہ ایسی کون سی چیز بنائی گئی ہے جس سے ہم سمجھیں کہ ہماری صنعتی پیداوار بڑھے گی۔انہوں نے کہا کہ 1952 میں مردم شماری ساڑھے 3 کروڑ تھی اور اب 22 کروڑ ہے، آنکھیں بند کرکے سوچ لیں کہ 30 سال بعد ہم اس ملک میں پیدل بھی گھوم سکیں گی خورشید شاہ نے کہاکہ اتنے بڑے بڑے ہسپتال کیوں بنائے جارہے ہیں، ہمارے یہاں تعلیم کا برا حال ہے، ہم 56، 58 شرح خواندگی کی بات کرتے ہیں 20 فیصد بھی نہیں۔

پیپلزپارٹی کے رہنما کا کہنا تھا 1996 میں جو تعلیم کی پالیسی دی گئی تھی وہ 2، 3 سال میں ختم ہوگئی تھی لیکن آج تعلیم کا بجٹ گذشتہ برس سے کم رکھا گیا ہے، مالی سال 19-2018 میں 97 ارب اور اس سال 77 ارب روپے مختص کیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ صحت کا بجٹ کم کرکے تعلیم کا بجٹ بڑھائیں تو بات سمجھ میں آتی ہے۔خورشید شاہ نے کہا کہ بجٹ میں ہاؤسنگ اسکیم کے لیے فنڈز مختص کیے گئے، خیال تھا کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام میں شامل افراد کو 50 لاکھ گھر ملیں گے۔

پیپلز پارٹی کے رہنما نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے عوام سے جتنے وعدے کیے ایک وعدہ پورا نہیں کیا، لیڈر کو عوام سے سوچ سمجھ کر وعدے کرنے چاہیں، غلط بیانی سے ووٹ لینے سے جماعتیں ختم ہوجاتی ہیں۔خورشید شاہ نے کہاکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت برے سے برا بجٹ پیش کرے اسے عوام دوست کہتی ہے ،بجٹ جتنا اچھا ہو، اپوزیشن اسے ہمیشہ مسترد ہی کرتی ہے، یہ روایت رہی ہے البتہ بعض اوقات بجٹ ایسے آتے ہیں جن پر بولنا حکومت و اپوزیشن ارکان کا فرض بن جاتا ہے ۔

انہوںنے کہاکہ حکومت کی جانب سے گزشتہ روز ایک سینئر رکن اسمبلی نے دبے الفاظ میں کہیں درحقیقت اپوزیشن بھی یہی کہتی ہے ۔انہوںنے کہاکہ حکومت کی کوشش کی گئی کہ ایسے حالات پیدا کیے جائیں کہ عوام کی توجہ بجٹ کی طرف نہ ہو ۔ انہوںنے کہاکہ جذباتی بن کر گالم گلوچ سے سیاست نہیں ہوتی،پھر ماحول خراب کرنے کی کوشش کی گئی ہے،ہماری کوشش ہو گی ماحول ٹھیک رکھیں۔

انہوںنے کہاکہ وفاقی حکومت کی اہم ذمہ داری ہے کہ آبادی میں اضافے کے مسئلے کو دیکھے،بجٹ میں اس حوالے سے کوئی قدم نہیں اٹھایا جا رہا۔ انہوںنے کہاکہ ملک کے حالات ایسے تھے محترمہ شہید ہو چکی تھیں۔ انہوںنے کہاکہ محترمہ کی شہادت کے بعد صوبوں میں آگ لگی تھی، نفرت تھی،پورے ملک میں دہشت گردی کا راج تھا، سوات سے پاکستان کا جھنڈا اتر چکا تھا،کہا جا رہا تھا طالبان اسلام آباد پہنچ رہے ہیں۔

انہوںنے کہاکہ 2010 میں سیلاب نے تباہی مچائی، انفراسٹرکچر ختم ہو گیا،اس کے باوجود ہم نے چیخ پکار نہیں کی کہ ماضی کی حکومت میں کیا ہوا،ہم نے رونا شروع نہیں کیا کہ ڈالر اور تیل کی قیمت کہاں پہنچ گئی ہے ،ہم نے اس ایوان پر اعتماد رکھا، اسی پارلیمنٹ نے راستہ دیا،ہم گھبرائے نہیں، الزام تراشیاں نہیں کیں،نوید قمر صاحب آئے انہوں نے کام کیا، حالات کو سنبھال لیا۔

وزیر مملکت زرتاج گل نے خورشید شاہ کو جواب دیتے ہوئے کہاکہ ہمیں لوٹوں کا گلہ کرنے والے خیال کریں کہیں وہاں سے رانا ثنا سے لے کر اویس لغاری تک صفیں خالی نہ ہو جائے ۔ انہوںنے کہاکہ ہم نے وزیرخزانہ بدلا، ہماری پارٹی کا فیصلہ تھا مگر آپ نے کیوں پانچ وزرا خزانہ بدلی ۔ انہوںنے کہاکہ ہم پہلی بار آئی ایم ایف کے پاس گئے مگر آپ تو 7 مرتبہ آئی ایم ایف کے پاس گئی کیا وہ درست تھا ۔

انہوںنے کہاکہ 70 سال میں آپ کی زراعت کیا پالیسی تھی، کون سی فصل کہاں اگے گی، آپ حتمی فیصلہ نہ کرسکے ۔ انہوںنے کہاکہ 70 سال میں پہلا بجٹ غریب عوام، نادار افراد کے لئے بجٹ ہے، 100 ارب کی رقم اس بجٹ میں نوجوانوں کے لئے رکھی ۔ انہوںنے کہاکہ روٹی کپڑا مکان اگر واقعی دیا ہوتا تو کوئی ایک رکن قومی اسمبلی پیپلز پارٹی کا خیبر پختونخوا سے کیوں نہیں ۔

انہوںنے کہاکہ 31 ہزار ارب روپے لے کر کہاں خرچ کئے، اگر خرچ کئے ہوتے تو ملک دیوالیہ نہ ہوتا ۔ انہوںنے کہاکہ 6 کروڑ روپیہ روزانہ سابق وزیراعظم نواز شریف کا صوابدیدی خرچ تھا ۔ زرتاج گل نے کہاکہ آپ ہم پر تنقید کریں مگر سینئرز کو بتاتے ہیں کہ ہم ڈیم بناکر دکھائینگے ۔ انہوںنے کہاکہ لندن یاترا، فیملی کے بلز، یوٹیلیٹی بلز تک سابق حکمرانوں نے غریب عوام کی جیب سے نکالا گیا ۔

انہوںنے کہاکہ گیس، بجلی، ریلوے، سٹیل ملز، پی آئی اے سمیت دیگر محکموں کا خسارہ چھوڑ کر گئے ہیں ۔ زرتاج گل نے کہاکہ ترچھی ٹوپی پہن کر قدرتی آفات ختم نہیں ہوتی۔ انہوںنے کہاکہ پہلی مرتبہ لاہور کے علاوہ پنجاب کے دیگر اضلاع کا سوچا گیا۔ انہوںنے کہاکہ پہلی مرتبہ بجٹ میں جنوبی پنجاب کی سنی گئی۔انہوںنے کہاکہ ن لیگ کی لندن یاترا کے پیسے بھی عوام کی جیبوں سے لئے گئے۔

برجیس طاہر نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہاکہ نوازشریف نے ملک سے دہشت گردی اور لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کیا،اگر پرویزمشرف کے خلاف انکوائری ہوجاتی تو ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوتا۔ انہوںنے کہاکہ بجٹ میں کاشتکاروں کو ریلیف دینا چاہئے انہوںنے کہاکہ بجٹ ئی ایم ایف کے ملازمین نے بنایا۔ انہوںنے کہاکہ حکومت نے بجٹ کیلئے اپنا ایک وزیر قربان کردیا۔

انہوںنے کہاکہ حکومت مشرف دور کے وزیرخزانہ سے خدمات لے رہی ہے۔ انہوںنے کہاکہ آئی ایم ایف کے ملازمین جو بریف کیس لے کر آئے تھے وہی بریف کیس لیکر واپس جائیں گے۔اسلم بھوتانی نے این ایف سی میں بلوچستان کا حصہ کم کرنے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ 2010 میں بلوچستان کو سب سے زیادہ حصہ ملا،آج بلوچستان کا حصہ تین فیصد کم کرنے کی بات کی جا رہی ہے۔

انہوںنے کہاکہ بلوچستان نے ملک کو سی پیک دیا، گوادر ہے تو سی پیک ہے۔انہوںنے کہاکہ اگر این ایف سے میں بلوچستان کا حصہ کم ہوا تو بھرپور احتجاج کریں گے۔انہوںنے کہاکہ گوادر میں بجلی دی جائے، 18 گھنٹے لوڈشیڈنگ ہے۔خرم دستگیر نے بجٹ بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہاکہ قوم بیروزگاری اور مہنگائی سے تنگ اور عاجز آچکی ہے۔ انہوںنے کہاکہ ہم فکری دیوالیہ پن کا تماشہ دیکھ رہے ہیں ۔

انہوںنے کہاکہ دس ماہ میں دس لاکھ لوگ بیروزگار اور چالیس لاکھ غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے ۔ انہوںنے کہاکہ چھ ماہ میں چوالیس ریلوے کے حادثے ہو چکے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ پاکستان کا جی ڈی پی گروتھ تباہ ہوکر رہ گیا ۔ انہوںنے کہاکہ یہ معاشی دیوالیہ پن تک لے آئے ہیں۔انہوںنے کہاکہ وزیر خزانہ جتنے چاہیں بدلیں،مسئلہ سربراہ کا ہے،مچھلی سر سے گلنا سڑنا شروع ہو گئی ہے ۔

انہوںنے کہاکہ بڑی صنعت دو فیصد سکڑ گئی ،ٹیکس نہیں آرہا۔ن لیگ کے رکن خرم دستگیر نے کہاکہ عمران خان نے کہا تھا کہ حکمران چور ہوں تو عوام ٹیکس نہیں دیتے۔ انہوںنے کہاکہ اس سال عوام نے 20 کھرب روپے کم ٹیکس دیا ہے۔ انہوںنے کہاکہ چار بڑے مافیاز کو ٹیکس میں چھوٹ دی گئی ۔ انہوںنے کہاکہ جن میں کار مینوفیکچرز، پراپرٹی ڈیلرز ،سپورٹس فرنچائزڈ اور اسٹاک ایکسچینج شامل ہیں۔

تحریک انصاف کی شنیلا رتھ نے کہاکہ تحقیقاتی کمیشن بنانے پر وزیراعظم کا شکریہ ادا کرتی ہوں،کرپشن ثابت ہونے پر سخت سے سخت سزا دینی چاہیے ۔انہوںنے کہاکہ اقتدار سنبھالا تو ملکی معیشت تباہی کے دہانے پر تھی۔ انہوںنے کہاکہ ماضی کی حکومتوں نے چارٹر آف کرپشن کررکھا تھا۔ انہوںنے کہاکہ اٹھارویں آئینی ترمیم نے اقلیتوں کا بیڑاغرق کردیا،اپنی حکومت سے مطالبہ کرتی ہوں اقلیتوں کے فنڈز مختص کئے جائیں۔
Live پاکستان تحریک انصاف سے متعلق تازہ ترین معلومات