بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں ماحولیات کے عالمی دن کے حوالے سے سیمینار کا انعقاد

عالمی سطح پر ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیوں کے مضر اثرات سے بچنے کے لئے ہمیں زیادہ سے زیادہ جنگلات لگانے ہوں گی ، ماہرین ماحولیات

جمعہ 21 جون 2019 19:31

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 21 جون2019ء) ماحولیات کے ماہرین نے پاکستان میں جنگلات کے رقبہ میں تیزی سے کمی اور پلاسٹک کو ماحول کے لئے شدید خطرناک قرار دیتے ہوئے زور دیا ہے کہ عالمی سطح پر ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیوں کے مضر اثرات سے بچنے کے لئے ہمیں زیادہ سے زیادہ جنگلات لگانے ہوں گے جبکہ حکومت شاپنگ بیگ پر مکمل پابندی لگائے، ماحول کو بہتر بنانے کے لیے انفرادی کردار بہت اہم ہے، ان ڈور فضائی آلودگی کے متعلق آگاہی نہ ہونے کے برابر ہے۔

جمعہ کو بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں ماحولیات کے عالمی دن کے حوالے سے سیمینار کا اہتمام کیا گیا۔ جس میں چیئرمین ڈیپارٹمنٹ آف ماحولیاتی سائنس انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی ڈاکٹر ابرار شنواری، ایف اے او کے ڈائریکٹر ڈاکٹر فیصل باری، نمائندہ برائے وزارت موسمیاتی تبدیلی ڈاکٹر ضیغم عباس، ڈاکٹر فضل، ایس ڈی پی آئی کی نمائندہ مریم شبیر، ڈاکٹر رخسانہ چیئرمین ڈیپارٹمنٹ آف ماحولیاتی سائنس فی میل کیمپس، ڈاکٹر اعجاز تارڑ اور ڈاکٹر جمال نے خطاب کیا۔

(جاری ہے)

ایف اے او کے ڈائریکٹر ڈاکٹر فیصل باری کا کہنا تھا کہ پاکستان میں جنگلات کو خوفناک رفتار سے کاٹا جارہا ہے۔ہرسال 27000ہیکٹئر رقبہ پر مشتمل جنگلات کاٹے جارہے ہیں۔تاہم حکومت خیبر پختون خوا اس حوالہ سے حوصلہ افزا اقدام کررہی ہے گذشتہ پانچ سالوں میں خیبر پختونخوا کے جنگلات کے رقبہ میں 6 فیصد اضافہ ہوا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ جنگلات کی کٹائی کی بڑی وجہ ہم ٹمبر مافیا کو قرار دیتے ہیں تاہم یہ غلط ہے۔

ٹمبر مافیاء صرف 10 سے 15 فیصد جنگلات کاٹتے ہیں دیگر 85 فیصد لکڑی مقامی لوگ کاٹ کر فیول کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ ہمیں جنگلات کے تحفظ کے لیے ہنگامی اقدامات کرنا ہوں گے۔ چیئرمین ڈیپارٹمنٹ آف ماحولیاتی سائنس ڈاکٹر ابرار شنواری نے کہا کہ ہمارا اصل مسئلہ معاشرہ کی ضرورت کے مطابق ریسرچ کی عدم دستیابی ہے۔ طلباء انڈسٹری اور معاشرہ کے لیے سود مند ریسرچ کی بجائے فیشن کی طرف جاتے ہیں، وہیں طلباء کو ریسرچ کے لیے معاشی مسائل کا سامنا ہے۔

حکومت کو آگے آنا چاہیے اور وزارتوں کو درکار ریسرچ کسی کنسلٹنٹ کی بجائے طلباء کو سونپنی چاہیے اس سے جہاں حکومت کو کئی گنا بچت ہوگی وہیں اکیڈمیا اور پالیسی سازی کے درمیان خلا کم ہوگا۔ نمائندہ برائے وزارت موسمیاتی تبدیلی ڈاکٹر ضیغم عباس نے کہا کہ ہمیں پلاسٹک کی آلودگی کو ختم کرنا ہوگا، اگست سے وفاقی دارالحکومت پلاسٹک فری ہوجائے گا۔

وزارت موسمیاتی تبدیلی کے لیے 7000 ملین روپے رکھے گئے ہیں۔ ڈاکٹر رخسانہ چیئرمین ڈیپارٹمنٹ آف ماحولیاتی سائنس فی میل کیمپس نے کہا کہ ماحول کے متعلق شعور و آگاہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے، پلاسٹک ماحولیاتی آلودگی میں ایک بہت برا جز ہے۔ ایس ڈی پی آئی کی نمائندہ مریم شبیر نے کہا کہ ماحولیاتی آلودگی کا براہ راست تعلق انسانی صحت کیساتھ ہے۔ ہمارے شہر دنیا بھر میں فضائی آلودگی میں سب سے آگے ہیں وہیں حکومتی سطح پر فضائی آلودگی کے ڈیٹا کی عدم دستیابی مایوس کن ہے۔ انہوں نے کہا کہ ماحول کو بہتر بنانے کے لیے انفرادی کردار بہت اہم ہے، ان ڈور فضائی آلودگی کے متعلق آگاہی نہ ہونے کے برابر ہے۔

متعلقہ عنوان :