بزنس کمیونٹی کی وزیر اعظم اور اعلیٰ حکام سے ملاقاتوں کا بے نتیجہ ختم ہونا تشویشناک ہے: میاں زاہد حسین

تاجروں اور صنعتکاروں میں بے چینی سے معا شی عدم استحکام بیروزگاری اورمہنگا ئی بڑھے گی، بینک ا کاؤنٹس کی با ئیو میٹرکس تصدیق کے بعد شنا ختی کا رڈ کی شرط پر اصرار بے معنی ہے

جمعہ 12 جولائی 2019 18:07

بزنس کمیونٹی کی وزیر اعظم اور اعلیٰ حکام سے ملاقاتوں کا بے نتیجہ ختم ..
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 12 جولائی2019ء) پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فور م وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر ،بزنس مین پینل کے سینئر وائس چےئر مین اور سابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ تاجروں اور صنعتکاروں کی وزیر اعظم،مشیر خزانہ عبد الحفیظ شیخ و دیگر وزراء اور چیئرمین ایف بی آرسے ملاقاتوں کا بے نتیجہ ختم ہونا تشویشناک ہے جس کے نتیجہ میں بے چینی،معا شی عدم استحکام اور کشیدگی بڑھے گی۔

حکومت کاروباری برادری کے مطالبات کی روشنی میں لچک کا مظاہرہ کرے تاکہ معیشت کا پہیہ گھوم سکے۔میاں زاہد حسین نے بز نس کمیونٹی سے گفتگو میں کہا کہ بینک ا کاؤنٹس کی با ئیو میٹرک تصدیق کے بعد
 شنا ختی کا رڈ کی شرط بے معنی ہے ۔ حکومت کے ٹیکس اقدامات کے خلاف احتجاج اور ہڑتالیں جاری ہیں ، مختلف کاروبار بند ہو رہے ہیں اور فیکٹریوں کو تالا لگایا جا رہا ہے۔

(جاری ہے)

بجٹ میں بہت کچھ وضاحت طلب ہے جسکی تفصیلات کے لئے کاروباری برادری ہر ممکن کوشش کر رہی ہے مگر کہیں با معنی شنوائی نہیں ہو رہی ہے جس سے ان میں مایوسی پھیل رہی ہے۔ ٹیکس کے نظام میں بعض ایسی تبدیلیاں بھی کی گئی ہیں جن کے تحت ملک میں کوئی چیز بنانے سے اسکا درآمد کرنا زیادہ منافع بخش ہو گیا ہے جو حیران کن ہے۔انھوں نے کہا کہ گزشتہ ایک سال میں شرح سود دُگنی اور روپے کی قدر میں50فیصد کمی نے کاروباری لاگت کودو چند بڑھا دیا ہے اور کئی کاروبار چلنے کے قابل ہی نہیں رہے ہیں ان حالات میں تاجر و صنعتکار مزید ٹیکسوں کے حق میں نہیں ہیں جبکہ حکومت نے 35فیصد اضا فے کے ساتھ 1550ارب کے ٹیکسوں میں اضا فہ کر دیا ہے اور حکومت کی جانب سے بھی کسی قسم کی لچک کا مظاہرہ نہیں کیا جا رہا ہے۔

آئی ایم ایف سے بائیسویں بار تین سال پر محیط چھ ارب ڈالر کا قرضہ لینے کی وجہ معیشت کا استحکام یقینی بناناتھا مگر اسکی سخت شرائط نے معیشت کو غیر مستحکم اور تاجروں کو خوفزدہ کر دیا ہے جبکہ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں ایک دفعہ پھر اضا فہ بھی متو قع ہے ۔زیرو ریٹڈ ختم ہونے سے یہ سیکٹر بھی احتجا ج میں شامل ہو گیا ہے ۔عوام کی پریشانی میں اضافہ کے اسباب میں مہنگائی، ٹیکسوں میں اضافہ، ترقیاتی منصوبوں میں کٹوتی اور توانائی کی قیمت میں مسلسل اضافہ کا سلسلہ ہے۔ امسال افراط زر 13 فیصد اور اگلے سال 20فیصد تک ہو سکتا ہے جبکہ آئی ایم ایف سے وعدہ کیا گیا ہے کہ محاصل کو 2023-24 تک چار کھرب روپے سے بڑھا کر 10.5 کھرب روپے تک بڑھا دیا جائے گا جو موجودہ معاشی حالات میں مشکل لگتا ہے۔