ی* کھانے میں اعتدال صحت کی ضمانت ہے زیب و زینت حرام نہیں: آیت اللہ حافظ ریاض نجفی

اتوار 14 جولائی 2019 20:46

'لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 14 جولائی2019ء) وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے صدر آیت اللہ حافظ سید ریاض حسین نجفی نے کہا ہے کہ قرآن مجید نے کھانے پینے کے حوالے کوئی پابندی نہیں لگائی صرف اسراف سے منع کیا گیا ہے۔ سورہ اعراف میں کھانے پینے کے بارے حکم خداوند ہے کہ کھائو پیو مگر فضول خرچی ا ور اسراف نہ کرو۔غذا کی قدر کرنے کی اس قدر اہمیت ہے کہ کھانے کے برتن،پلیٹ کو انگلیوں سے صاف کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور اس کے فوائد بیان کیے گئے ہیں۔

علی مسجد جامعتہ المنتظر میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جس طرح زیادہ کھانا ممنوع اور نقصاندہ ہے اسی طرح بچ جانے والی غذاء کو پھینکنا یاضائع کرنا بھی منع ہے۔بچ جانے والا کھانا ضائع کرنے کی بجائے محفوظ کرلیا جائے تاکہ بعد میں کھایا جاسکے یا کسی کو دے دیا جائے۔

(جاری ہے)

ان کا کہنا تھا کہ کھانے میں اعتدال صحت کی ضمانت ہے۔ مشاہدہ یہ ہے کہ لوگ بھوک ،کم خوراک کی وجہ سے نہیں مرتے اور نہ بیمار ہوتے ہیں بلکہ زیادہ کھانے کی وجہ سے بیماری و موت کا شکار ہوتے ہیں۔

حافظ ریاض نجفی نے کہا کہ پہلے زمانے کے لوگوں کی زیادہ عمر کا ایک راز خالص غذا اور غیر ضروری آسائشات کا نہ ہونا تھا۔ اب ناخالص غذائوں کے ساتھ ساتھ خود کو غیر ضروری آسائشات کا عادی بنا لیا گیا ہے۔ مناسب حد تک سردی اور گرمی کا برداشت کرنا صحت کیلئے مفید ہے لیکن اکثرلوگ سردی و گرمی سے بچنے کی غیر ضروری سہولتوں سے استفادہ کرتے ہیں جس کے نتیجہ میں مناسب سردی و گرمی سے محروم ہوتے ہیں جس کا صحت پر برا اثر پڑتاہے۔

جب یمن کے بادشاہ نے حضور اکرم ؐ کی خدمت میں ڈاکٹر کو بھیجا تھا تاکہ صحابہ کرام کی حفظان صحت کا خیال کرے توحضورؐ نے فرمایا تھااس کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ لوگ فقط اس وقت کھاتے ہیں جب بھوک لگی ہو اور ابھی بھوک باقی ہوتی ہے کہ کھانا ختم کردیتے ہیں۔یہ ڈاکٹر اُس وقت مدینہ آیا جب قیصر روم نے یمن کے بادشاہ کو حضور ؐ کے خلاف کارروائی کرنے اور گرفتار کرنے کا حکم دیا۔

حضور ؐ نے بادشاہ ِ یمن کے نمائندوں کو بتایا کہ قیصر روم تو مرگیا ہے یہ ایک غیب کی خبر تھی کیونکہ اس زمانے میں کسی کے مرنے کی اطلاع دور کے مقامات پر کئی دنوں بعد ملتی تھی۔اس غیبی خبر کو سن کر یمن کا بادشاہ بہت متاثر ہوا اور خیر سگالی کی طور پر آپ کی خدمت میں ڈاکٹر کو بھیجا۔حافظ ریاض نجفی نے کہا کہ سورہ اعراف میں فرمایا گیا کہ اللہ نے زیب و زینت کی چیزوں کو انسانوں کیلئے حرام نہیں کیا۔

اسی سورہ مبارکہ میں مز ید ارشاد ہوا " اور اگر ان بستیوں کے لوگ ایمان لے آتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکتوں کے دروازے کھول دیتے لیکن انہوں نے تکذیب کی تو ہم نے ان کے اعمال کے سبب جو وہ کیا کرتے تھے انہیں گرفت میں لے لیا"۔امام جعفر صادق ؑ نے اپنی حکمت و دانائی سے غیر مسلموں کی اصلاح کی ۔ابن ابی العوجاایک مشہور دہریہ (کمیونسٹ)تھا جوکہ آخرت کا منکر تھا۔

امام ؑ نے اس سے سوال کیا کہ آپ کے خیال میں مرنے کے بعد کچھ نہیں ہوگاجبکہ اسلام کے مطابق حشر نشر قیامت ، حساب کتاب ہوگا۔فرض کریں جو آپ کا خیال ہے اگر ویسا ہو اتو آپ اور ہم برابر ہوں گے۔ ہمیں اس کا کوئی نقصان نہ ہوگا اور اگر حساب کتاب ، قیامت وغیرہ ہوئی تو ہم تو اس کیلئے تیار ہیں ، آپ کا انجام کیا ہوگا وہ اس نقطہ پر متوجہ ہوا اور تسلیم کیا کہ امام کا مئوقف ٹھیک ہے۔گذشتہ امتوں پر مختلف قسم کے عذاب آتے تھے اللہ تعالیٰ نے حضور اکرمؐ کے وجود کی برکت سے ان سے وعدہ فرمایا کہ حضور کے وجود کی وجہ سے عذاب نہ آئے گا اور جب تک لوگ استغفار کریں گے کوئی عذاب نہ آئے گا۔