اس روسی گاؤں کی ساری آبادی تنی ہوئی رسی پر چل سکتی ہے

Ameen Akbar امین اکبر اتوار 14 جولائی 2019 23:54

اس روسی گاؤں کی ساری آبادی تنی ہوئی رسی پر چل سکتی ہے

روس کے جنوب میں جمہوریہ  داغستان میں  کوہ قاف کے پہاڑی سلسلے میں دنیا سے الگ تھلک ایک گاؤں ایسا بھی ہے، جہاں کے  تمام رہائشی تنی ہوئی رسی پر چل سکتےہیں۔
ٹسوکرا-1 میں تنی ہوئی رسی پر چلنے کی روایت 100 سال سے بھی زیادہ پرانی ہے۔ اس گاؤں کے کم از کم 17 افراد، جن میں عورتیں بھی شامل ہیں،سابق سوویت یونین میں سرکس میں  تنی ہوئی رسی پر چلنے کے لیے کافی مقبول ہوئے تھے۔


اس گاؤں کی آبادی 400 نفوس پر مشتمل ہے۔ اس گاؤں کے بچے بھی  سکولوں میں تنی ہوئی رسی پر چلنے کے بارے میں پڑھتے ہیں۔ اس گاؤں کے  جوان اور بوڑھے ہر موسم میں تنی ہوئی رسی پر چلنے کی مشق کرتےہیں۔
روایت ہے کہ اس گاؤں میں  رسی پر چلنے کا آغاز رومانوی مہم سے شروع ہوا۔ گاؤں کے جوان قریبی آبادی میں خواتین سے ملنے کے لیے کئی دن تک  پیدل چل کر جاتے تھے۔

(جاری ہے)

پیدل چلنے کی مشقت سے بچنے کےلیے انہوں نے شارٹ کٹ کے طور پر وادی کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک رسی  پر چل کر جانا شروع کردیا۔ جلد ہی رسی پر چلنا مردانگی کی علامت سمجھا جانے لگا۔
گاؤں میں رہنے والے کچھ لوگوں کو اس روایت  کے سچ ہونے پر شبہات ہیں۔ ایک مقامی شخص کا کہنا ہے کہ سخت سردی اور مشکل موسم میں علاقے کےپل ٹوٹ جاتے تھے۔اس لیے لوگوں نے پلوں کی مرمت کا انتظار کرنے کی بجائے رسی پر چلنا شروع کر دیا۔


کچھ بھی ہے رسی پر چلنے کی روایت کا آغاز 19 ویں صدی کے شروع میں ہوا۔ گاؤں کے لوگ اپنی اس صلاحیت کی بنا پر اسی طرح قریبی گاؤں میں خریداری کے لیے جانے لگے۔
اس گاؤں میں خوشحالی کے دن تب آئے جب دوسری جنگ عظیم کے کچھ عرصے بعد سویت یونین میں سرکس مقبول ہونے لگے۔ اس گاؤں کے بہترین فنکاروں نے  سرکس میں بھرتی ہوکر دولت اور شہرت کمائی۔
آج اس گاؤں میں تنی ہوئی رسی پر چلنے کی روایت دم توڑتی جا رہی ہے۔

سیاسی عدم استحکام اور غریت کے باعث جوان افراد علاقہ چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ علاقےکے نوجوانوں کو تنی ہوئی رسی پر چلنے کی تربیت دینے کے لیے پہلے کی سی سہولیات اور فنڈز کی عدم دستیابی بھی اہم مسئلہ ہے۔اس کے باوجود بھی  مقامی رہائشیوں کو اپنی تنی ہوئی رسی پر چلنے کی صلاحیت پر فخر ہے۔


متعلقہ عنوان :