سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ ٹیلی کمیونیکیشن کا اجلاس

چیئرپرسن سینیٹر روبینہ خالد بارے سوشل میڈیا پر غلط ،بے بنیاد خبروں کے شائع ہونے پر تشویش کا اظہار سوشل میڈیا کے ذریعے جھوٹی خبروں کے پھیلنے کی مذمت ،تمام سیاسی پارٹیوں کو مل کر الیکٹرانک سسٹم کو محفوظ کرنے کیلئے کام کی ضرورت ہے تاکہ قانونی ترامیم کے ذریعے ٹیکنالوجی کے استعمال کو بہتر اور محفوظ کیا جاسکے، اراکین کمیٹی

بدھ 17 جولائی 2019 18:34

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 17 جولائی2019ء) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ ٹیلی کمیونیکیشن نے چیئرپرسن سینیٹر روبینہ خالد کے بارے میں سوشل میڈیا پر غلط اور بے بنیاد خبروں کے شائع ہونے کی شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سوشل میڈیا کے ذریعے جھوٹی خبروں کے پھیلنے کی مذمت کی ہے اور کہا ہے تمام سیاسی پارٹیوں کو مل کر الیکٹرانک سسٹم کو محفوظ کرنے کیلئے کام کی ضرورت ہے تاکہ قانونی ترامیم کے ذریعے ٹیکنالوجی کے استعمال کو بہتر اور محفوظ کیا جاسکے۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ ٹیلی کمیونیکیشن کا بدھ کو چیئرپرسن سینیٹر روبینہ خالد کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہائوس میں منعقد ہوا۔اجلاس میں سینیٹرز آشوک کمار، عبدالرحمن ملک، غوث محمد خان نیازی، محمد طاہر بزنجو، ثناء جمالی،فدا محمد، میاں محمد عتیق شیخ، فیصل جاوید، کلثوم پروین، وفاقی وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی خالد مقبول صدیقی ، چیئرمین پی ٹی اے، سیکرٹری برائے وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ایف آئی اے کے اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔

(جاری ہے)

اجلاس میں سینیٹر میر کبیر شاہی کے وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی میں کام کرنے والے ملازمین کی تفصیلات بارے اُٹھائے جانے والے سوال ، بچوں کے خلاف سائبر کرائم کی تفصیلات کے ساتھ ساتھ مالا کنڈ میں یوفون سروس کی عدم موجودگی پر رپورٹ کے علاوہ ملک میں ٹیکس جمع نہ کروانے کی وجہ سے بلا ک ہونے موبائل فون کی تعداد اور تفصیلات پر غور کیا گیا۔

کمیٹی کے اجلاس میں چیئرپرسن سینیٹر روبینہ خالد کے بارے میں سوشل میڈیا پر غلط اور بے بنیاد خبروں کے شائع ہونے کی شدید تشویش کا اظہار کیا ۔ سینیٹر رحمان ملک نے سوشل میڈیا کے ذریعے جھوٹی خبروں کے پھیلنے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک جرم ہے جو کہ دن بدن بڑھ رہا ہے اور اس کی روک تھام کیلئے قانون سازی کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ تمام سیاسی پارٹیوں کو مل کر الیکٹرانک سسٹم کو محفوظ کرنے کیلئے کام کی ضرورت ہے تاکہ قانونی ترامیم کے ذریعے ٹیکنالوجی کے استعمال کو بہتر اور محفوظ کیا جاسکے۔

اس سلسلے میں پی ٹی اے اور سائبر سکیورٹی کی باہمی معاونت ضروری ہے ۔اجلاس سوشل میڈیاپر غلط خبروں کے معاملہ کی جلد از جلد تفتیش کرانے کیلئے ذیلی کمیٹی کی تشکیل دے دی گئی اور ایف آئی اے کے ساتھ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کو جلد تحقیقی رپورٹ جمع کرنے کی ہدایات جاری کر دی گئیں۔ وفاقی وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی خالد مقبول صدیقی نے معاملہ کی جلد تحقیق کرانے کی یقین دہانی کرائی ۔

وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی میں موجود ملازمین کی تفصیلات بارے رپورٹ میں کمیٹی کو بتایا گیا کہ کل ملازمین کی تعداد 5319ہے جس میں قانون کے مطابق 6فیصد کوٹہ صوبہ بلوچستان کے لئے مختص ہے اور تمام ملک سے کوٹہ کے مطابق ملازمین کو نشستیں دی گئیں ہیں۔ جس پر سینیٹر میر کبیر شاہی کے صوبہ بلوچستان کے لئے کوٹہ کے کم ہونے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کی آبادی اور رقبے کے مطابق کوٹہ میں اضافہ کی ضرورت ہے ۔

وفاقی وزیر خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ قانون کے تقاضے پورے ہو رہے ہیں جبکہ انصاف کے تقاضے پورے کرنے کی ضرورت ہے اور قوانین میں ترامیم کی ضرورت ہے کہ انصاف دیا جاسکے۔ سینیٹر طاہر خان بزنجو نے صوبائی کوٹہ کی مدت ختم ہونے کے معاملہ کو اٹھاتے ہوئے کہا کہ اس کیلئے قانون سازی میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے اور اس معاملہ کو بھی ذیلی کمیٹی میں بھیج دینے کی گزارش کر دی ۔

بچوں کے خلاف سائبر کرائم اور انٹرنٹ پرفحش مواد کے معاملہ کو زیر بحث لاتے ہوئے کمیٹی کو بتایا گیا کہ پاکستان الیکٹرونک ایکٹ سیکشن 22کے تحت ایسی ویب سائٹس کو بلاک کیا جا سکتا ہے اور اس سلسلے میں پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کی طرف سے 8لاکھ ویب سائٹس بلاک کی جاچکی ہیں۔سینیٹر کلثوم پروین نے ایسے جرائم میں ملوث لوگوں کو سخت سزائیں دینے اور ایسے کیسز کی بروقت کاروائی شروع کرنے کی ہدایات دیتے ہوئے کہا کہ بروقت کاروائی شروع نہ ہونے کی وجہ سے اصل مجرموں کو پکڑا نہیں جا سکتا اور سزاوں کے عمل تاخیر کا شکار ہیں۔

کمیٹی نے اس کی مزید تفصیلات اگلے اجلاس میں طلب کرلیں۔بیر ون ملک سے لائے جانے والے موبائل فون اور ان کے اداشدہ ٹیکسوں کی تفصیلات دیتے ہوئے کمیٹی کو بتایا گیا کہ تقریباً10ملین موبائل فون ٹیکس نہ ادا کرنے کی وجہ سے بلاک کئے جا چکے ہیں ۔ اس سال موبائل فون رجسٹریشن سے موصول ہونے والے ٹیکس سے 21کروڑ کا منافع حاصل ہوا ہے اور اس عمل سے کمرشل لیگل درآمدات میں اضافہ دیکھا گیا ہے اس کے ساتھ ساتھ سمگلنگ میں واضح کمی دیکھی جا رہی ہے۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ بیرون ملک سے آنے والے موبائل صارفین کو 500ڈالر سے زائد قیمت کے موبائل پر 31520روپے ٹیکس ادا کرنا ہو گا تاہم استعمال شدہ اور زیر استعمال ایک موبائل فون بھی رجسٹریشن اور ٹیکس کے زمرے میں آتا ہے۔ کمیٹی نے کم از کم ایک زیر استعمال فون پر رجسٹریشن فیس کی چھوٹ کی ہدایات جاری کر دیں اور حکومت سے ایک فون پر ٹیکس کی چھوٹ کی گزارش کر دی ۔