عالمی عدالت انصاف نے کلبھوشن یادیو کو بھارتی شہری تسلیم کرتے ہوئے اس کی بریت اور بھارت حوالگی کی درخواست مسترد کردی

کلبھوشن یادیو پاکستان کی تحویل میںہی رہے گا تاہم اسے قونصلر رسائی دی جائے، پاکستان اپنی ذمہ دار ی نبھاتے ہوئے کلبھوشن یادیو کو سنائی گئی سزا پر نظرثانی اور دوبارہ غور کیلئے اپنی منشا کے مطابق راستہ اپنائے اور اس امر کو بھی یقینی بنایا جائے کہ حتمی فیصلہ ہونے تک یادیو کی سزا پر عملدرآمد نہ ہو،۔ عالمی عدالت انصاف

بدھ 17 جولائی 2019 22:53

دی ہیگ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 17 جولائی2019ء) عالمی عدالت انصاف نے کلبھوشن یادیو کو بھارتی شہری تسلیم کرتے ہوئے اس کی بریت اور بھارت حوالگی کی درخواست مسترد کر تے ہوئے واضح کیا ہے کہ کلبھوشن یادیو پاکستان کی تحویل میںہی رہے گا تاہم اسے قونصلر رسائی دی جائے۔ عالمی عدالت انصاف نے مزید کہاکہ پاکستان اپنی ذمہ دار ی نبھاتے ہوئے کلبھوشن یادیو کو سنائی گئی سزا پر نظرثانی اور دوبارہ غور کیلئے اپنی منشا کے مطابق راستہ اپنائے اور اس امر کو بھی یقینی بنایا جائے کہ حتمی فیصلہ ہونے تک یادیو کی سزا پر عملدرآمد نہ ہو۔

بدھ کوعالمی عدالت انصاف کے صدر جج عبدالقوی احمد یوسف نے نیدر لینڈ کے شہر دی ہیگ میں پاکستانی وقت کے مطابق شام چھ بجے پیس پیلس میں فیصلہ سنایا۔

(جاری ہے)

یاد رہے کہ کلبھوشن یادیو کا کیس دو سال سے زائد عرصہ عالمی عدالت انصاف میں زیر سماعت رہا۔ پاکستان نے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو جاسوسی کے الزام میں پھانسی کی سزا سنائی تھی۔ قبل ازیں رواں سال21 فروری کو عالمی عدالت انصاف کے 15 رکنی بینچ نے پاکستان اور بھارت کے دلائل سننے کے بعد اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔

پاکستان کی طرف سے اٹارنی جنرل انور منصور خان کی سربراہی میں دفتر خارجہ کے ڈائریکٹر جنرل سائوتھ ایشیاء ڈاکٹر محمد فیصل سمیت دوسرے حکام پر مشتمل وفد گزشتہ روز نیدر لینڈ پہنچا تھا۔ پاکستان کا مقدمہ لڑنے والے نامور وکیل خاور قریشی بھی عالمی عدالت انصاف کا فیصلہ سننے کے لئے موجود تھے۔ ترجمان دفتر خارجہ نے گزشتہ روز کہا تھا کہ پاکستان عالمی عدالت انصاف سے بہتری کی امید رکھتا ہے اور پاکستان عالمی عدالت کا فیصلہ تسلیم کرے گا۔

بھارت کے حاضر سروس نیوی کمانڈر کلبھوشن یادیو عرف حسین مبارک پٹیل 3 مارچ 2016ء کو پاکستان کے صوبہ بلوچستان سے ایک انسداد دہشت گردی آپریشن کے دوران پکڑا گیا تھا۔ بلوچستان اور کراچی میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہونے اور جاسوسی کے الزامات کے تحت 10 اپریل 2017ء کو پاکستان کی فوجی عدالت کی طرف سے کلبھوشن یادیو کو موت کی سزا سنائے جانے کے بعد بھارت یہ معاملہ 8 مئی 2017ء کو عالمی عدالت انصاف میں لے کر گیا تھا۔

فروری میں سماعت کے دوران پاکستان نے عالمی عدالت انصاف میں اپنا موقف پیش کیا کہ کلبھوشن یادیو نے مجسٹریٹ کے سامنے اپنے جرائم کا اعتراف کیا اور بتایا کہ وہ بھارتی بحریہ کا حاضر سروس آفیسر ہے اور وہ بھارتی خفیہ ایجنسی را کے لئے کام کر رہا تھا۔ بھارتی جاسوس نے گوادر کی بندرگاہ اور پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) سے متعلق دیگر تنصیبات سمیت پاکستان کے عوام اور انفراسٹرکچر کے خلاف دہشت گردی میں ملوث ہونے کا اعتراف کیا۔

پاکستان نے عالمی عدالت انصاف میں اپنے اس موقف پر بھی زور دیا کہ 21 مئی 2008ء کو پاکستان اور بھارت کے مابین قونصلر رسائی معاہدہ دونوں ریاستوں کو یہ اجازت دیتا ہے کہ وہ قومی سلامتی سے متعلق کیس میں قونصلر رسائی دیئے جانے کی درخواست کا فیصلہ میرٹ پر کریں۔ پاکستان نے عالمی عدالت انصاف کے قونصلر ریلیشنز 1963 (جو امریکہ کی طرف سے دی گئی موت کی سزائوں سے متعلق ہی) پر ویانا کنونشن کی دفعہ 36 کے حوالے سے عالمی عدالت انصاف کے سابقہ تمام فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ عدالت واضح کر چکی ہے کہ عالمی عدالت انصاف فوجداری اپیل نمٹانے کے لئے نہیں ہے اور اس معاملے میں داخلی عدالتیں ہی نظرثانی اور ازالے کے لئے موثر اور مناسب ترین فورم ثابت ہو سکتی ہیں خواہ قونصلر رسائی نہ دیئے جانے کا معاملہ ہی کیوں نہ ہو۔

دوسری جانب بھارت نے عالمی عدالت انصاف میں دعویٰ کیا کہ کمانڈر یادیو ایک معصوم بھارتی شہری ہے جسے اغواء کیا گیا تاہم بھارت عالمی عدالت انصاف میں یہ ثابت کرنے میں ناکام رہا کہ کلبھوشن یادیو کب اور کیسے پاکستانی سرزمین پر گرفتاری کے وقت اپنی 47 سال کی عمر میں بھارتی بحریہ سے ریٹائر کیا گیا۔ بھارت یہ وضاحت پیش کرنے میں بھی ناکام رہا کہ کمانڈر کلبھوشن یادیو کے پاس حسین مبارک پٹیل کے جعلی نام سے مستند بھارتی پاسپورٹ کیسے موجود تھا جسے اس نے کم از کم 17 مرتبہ بھارت آمد و رفت کے لئے استعمال کیا۔