کلبھوشن یادیو کیس کے فیصلے پر دفترِ خارجہ کا ردِ عمل بھی آگیا

کلبھوشن یادیو پاکستان کی حراست میں رہے گا، ترجمان دفترِ خارجہ

Usman Khadim Kamboh عثمان خادم کمبوہ بدھ 17 جولائی 2019 20:22

کلبھوشن یادیو کیس کے فیصلے پر دفترِ خارجہ کا ردِ عمل بھی آگیا
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین۔17جولائی 2019) کلبھوشن یادیو کیس کے فیصلے پر دفترِ خارجہ کا ردِ عمل بھی آگیا ہے۔ ترجمان دفترِ خارجہ فیصل جاوید خان نے کہا ہے کہ کلبھوشن یادیو پاکستان کی حراست میں رہے گا ۔ عالمی عدالت انصاف کےباہرترجمان دفتر خارجہ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ کلبھوشن کاکیس بھارت کی ریاستی دہشتگردی کاواضح ثبوت ہے ، عالمی عدالت نےواضح کردیاکمانڈرکلبھوشن جادھو پاکستان کی حراست میں رہےگا۔

انہوں نے کہا ہے کہ کلبھوشن جادھو نےان جرائم کااعتراف پاکستان کی عدالت میں سماعت کےدوران کیا۔ انہوں نے کہا کہ کلبھوشن کی جانب سےدہشتگردی کےواقعات میں کئی پاکستانی خواتین بیوہ اوربچےیتیم ہوئے تھے اور کلبھوشن کی جانب سےدہشتگردی کےواقعات میں کئی پاکستانی جاں بحق ہوئے۔

(جاری ہے)

فیصل جاوید نے بتایا کہ کلبھوشن جادھو کےپاس سےجعلی نام حسین مبارک پٹیل کابھارتی پاسپورٹ ملا اور کلبھوشن کی رہائی نہ ہونا پاکستان کی فتح ہے۔

وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی اپنے ٹویٹر پیغام میں کہا ہے کہ ’کلبھوشن یادیو پاکستان میں ہی رہے گا۔ 
واضح رہے کہ عالمی عدالت کے فیصلے نے پاکستانی ملٹری عدالتوں پر اعتماد کو مزید مضبوط کر دیا ہے۔ عالمی عدالت نے پاکستانی ملٹری عدالتکے فیصلے کو نہ تو کالعدم قراردیا نہ غلط ثابت کیا بلکہ اسے مانتے ہوئے پاکستانی سے نظرِ ثانی کرنے کو کہا ہے۔

واضح رہے کہ عالمی عدالت نے کلبھوشن یادیو کو رہا کرنے کی بھارتی اپیل بھی مسترد کر دیا اور سزائے کو بھی ختم نہیں کیا بلکہ سزائے موت کو عمر قید میں بدلنے کے لیے پاکستان کو نظرِ ثانی کرنے کا کہا ہے ہے۔ خیال رہے کہ آج عالمی عدالت نے کلبھوشن یادیو کودہشت گرد قرار دے دیا ہے۔ عالمیعدالت کی کے جج کی جانب سے دہشتگرد کلبھوشن یادیوکا فیصلہ سنائے جانے کے بعد تفصیلی فیصلہ سامنے آ گیاہے۔

عالمی عدالت کے مطابقکلبھوشن یادیو بھارتی نیوی کا افسر ہے ، کئی بار پاکستان غیر قانونی طور پر گیا۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ کلبھوشن کو رہا نہیں کیا جا سکتا، کونسلر رسائی کے فیصلے پر پاکستان نظرِ ثانی کرے کیونکہ اس حوالے سے پاکستان نے ویانا کنونشن کی شق 36(1)کی خلاف ورزی کی تھی اس لیے اس پر نظرِ ثانی کی جائے۔ جج کا کہنا تھا کہ میں مقدمے کی تفصیلی شقوں کی طرف نہیں جانا چاہتا۔ بھارت نے ویانا کنونشن کے تحت قونصلر رسائی مانگی ہے۔ پاکستان اور بھارت ویانا کنونشن کے فریق ہیں۔ ویانا کنونشن کے تحت یہ کیس عالمی عدالت انصاف کے دائرہ کار میں آتا ہے۔ ہم نے کیس کا ماضی کی پہلوؤں سے جائزہ لیا۔ جج نے اس کیس میں پاکستاناور بھارت کی جانب سے وضع کیا گیا مؤقف بھی بیان کیا۔