کیا نواز دور میں کلبھوشن کو رہا کرنے کی تیاریاں کر لی گئی تھیں؟

کون سی اہم شخصیت کلبھوشن کی رہائی میں کردار ادا کر رہی تھی؟ پاک فوج نے رہا کرنے سے کیوں انکار کیا؟ عارف حمید بھٹی نے بتا دیا

Muqadas Farooq Awan مقدس فاروق اعوان جمعرات 18 جولائی 2019 13:23

کیا نواز دور میں کلبھوشن کو رہا کرنے کی تیاریاں کر لی گئی تھیں؟
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 18 جولائی 2019ء) : معروف صحافی عارف حمید بھٹی کا کہنا ہے کہ جب کلبھوشن یادیو کو گرفتار کیا گیا تھا تو اس وقت کی حکومتِ پاکستان کے حالات کچھ اور تھے۔بھارت نے کوشش کی تھی کہ کسی بھی طریقے سے کلبھوشن کو پاکستان سے نکال لیا جائے اور کلبھوشن کا پاکستان میں ٹرائل نہ کیا جائے اور اس تمام معاملے میں ایک اہم ترین شخصیت بھی کردار ادا کر چکے تھے۔

لیکن پاکستان کی فوج نے انکار کر دیا اور کہا گیا کہ جس طرح کلبھوشن کو گرفتار کیا گیا ہے اس کے بعد کلبھوشن کے معاملے کو قانونی طریقے سے دیکھا جائے گا۔دنیا میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ ایک دوسرے ملک کی جاسوس ایجنسی کے سرونگ افسر کو گرفتار کیا گیا ہے۔مجھے نہیں لگتا کہ کسی طرح بھی کلبھوشن کی رہائی ناممکن ہے تاہم یہ مشکل ضرور ہے۔

(جاری ہے)

اپیل کرنے کا حق ان کے پاس پہلے بھی تھا اور اب بھی تھا۔

عارف حمید بھٹی نے مزید کہا کہ کلبھوشن کی رہائی بظاہر مشکل لگتی ہے۔اگر سابقہ حکومت ہوتی تو پھر ممکن تھا کہ کلبھوشن کو کوئی ریلیف مل جاتا مگر اب ممکن نہیں۔
واضح رہے گذشتہ روز عالمی عدالت انصاف میں کلبھوشن کیس کا فیصلہ سنایا گیا تھا۔ عالمی عدالت نے کلبھوشن کیس میں دائر درخواست میں بھارت کی طرف سے کی گئی اپیلیں مسترد کر دیں ۔

عدالت نے قرار دیا کہ دہشتگرد پاکستان کی تحویل میں ہی رہے گا۔ آئی سی جے کی جانب سے کلبھوشن کی گرفتاری کی بر وقت اطلاع نہ دینے کا الزام مسترد ہونے سے بھی بھارت کو سبکی اُٹھانا پڑی ہے۔عدالت نے پاکستانی مؤقف کی بھرپور پذیرائی کی اور واضح کیا کہ اسلام آباد نے ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھارتی ہائی کمشنر کو بلا کر تمام تفصیلات سے آگاہ کیا تھا۔ عالمی عدالت کے مطابق کلبھوشن یادیو بھارتی نیوی کا افسر ہے ، کئی بار پاکستان غیر قانونی طور پر گیا۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ کلبھوشن کو رہا نہیں کیا جا سکتا، کونسلر رسائی کے فیصلے پر پاکستان نظرِ ثانی کرے کیونکہ اس حوالے سے پاکستان نے ویانا کنونشن کی شق 36 (1) کی خلاف ورزی کی تھی اس لیے اس پر نظرِ ثانی کی جائے۔