عالمی بینک ٹیم کے 4 رکنی وفد کی صدر لاہور چیمبر سے ملاقات،

پنجاب میں زرعی و دیہی ترقی کے پروگرام’’سمارٹ‘‘ کے حوالے سے تفصیلی تبادلہ خیال

جمعہ 19 جولائی 2019 17:33

عالمی بینک ٹیم کے 4 رکنی وفد کی صدر لاہور چیمبر سے ملاقات،
لاہور۔19 جولائی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 19 جولائی2019ء) عالمی بینک ٹیم کے 4 رکنی وفد نے ہینز جوہانز کی قیادت میں لاہور چیمبر کا دورہ کیا اور صدر الماس حیدر سے ملاقات کی۔ ملاقات میں پنجاب میں زرعی و دیہی ترقی کے متعلق ورلڈ بینک کے پروگرام ’’سمارٹ‘‘کے حوالے سے تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ وفد کے ارکان میں سینئر کمیونیکیشن آفیسر فلورے مارٹینینٹ، کمیونیکیشن آفیسر مہرین سعید اور عرفان رزاق شامل تھے۔

وفد نے صدر لاہور چیمبر کو پروگرام کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ اس پروگرام کا مقصد پنجاب میں کسانوں کی فصلوں اور مویشیوں کی پیداوار میں اضافہ، بدلتی آب و ہوا سے مقابلہ کرنے کی صلاحیت میں بہتری، پنجاب میں زرعی کاروبار کی ترقی ہے۔ لاہور چیمبر کے صدر الماس حیدر نے کہا کہ پاکستان کی معیشت میں زراعت کا کردار نہایت اہم ہے کیونکہ زراعت کا ملکی جی ڈی پی میں حصہ 18.5فیصد جبکہ روزگار کی فراہمی میں حصہ 38.5 فیصد ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ سال2018-19میں زرعی شعبہ میں ترقی کی شرح محض 0.85 فیصد رہی، اگرملک کی ترقی کی شرح6 سے 7 فیصد تک بڑھانا اور خطے کی اہم معیشت بننا چاہتے ہیں تو زرعی شعبہ کی ترقی بے حد ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں لائیو سٹاک سیکٹر کی ترقی کیلئے کوئی جینیاتی تبدیلی کا پروگرام موجود نہیں ہے، ڈیری شعبے کی پیداوار میں اضافے کیلئے مویشیوں میں جینیاتی اصلاح کی ضرورت پڑتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ زراعت کے مارکیٹنگ قوانین میں بھی تبدیلی کی ضرورت ہے تاکہ بڑی کمپنیاں کسی ایجنٹ کے بجائے براہ راست کسانوں سے ہی زرعی مصنوعات حاصل کر سکیں ۔ صدر لاہور چیمبر آف کامرس نے کہا کہ زرعی شعبہ کو آزاد مارکیٹ کے طور پر چلانا چاہیئے، حکومت کا کردار زرعی مصنوعات کی خریدو فروخت کی بجائے ان کے تحفظ تک محدود ہونا چاہئیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ زرعی مصنوعات کے حوالے سے برآمدی قوانین میں بھی لچک کی ضرورت ہے، مقامی ڈیمانڈ پوری کرنے کے بعد اضافی پیداوار کو بھی برآمد کرنے کی آزادی ہونی چاہئیے جبکہ سبسڈی ہر ایک کی بجائے صرف غریبوں کو دی جانی چاہیئے۔

انہوں نے کہا کہ زراعت نہایت اہمیت کی حامل شعبہ ہے کیونکہ یہ نہ صرف خوراک مہیا کرتی ہے بلکہ یہ کپاس، گنا، چاول، تیل کیلئے بیج کے علاوہ چھوٹی اور بڑی صنعتوں کیلئے خام مال کا بھی ذریعہ ہیں، ان حقائق کو مد نظر میں رکھتے ہوئے کسانوں کی فصلی اور لائیوسٹاک پیداوار میں اضافے کیلئے زرعی شعبہ میں ترجیحی بنیادوں پر ترامیم کی ضرورت ہے، ہم اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کر سکتے کہ کاشت کاری کا فی ایکڑ رقبہ انتہائی کم ہے جس میںکافی عرصے سے بہتری نہیں دکھائی دے رہی۔

انہوں نے کہا کہ زرعی پیداوار کا بڑا حصہ خصوصاً پھل اور سبزیاں فارم سے منڈیوں تک لے جاتے ہوئے ضائع ہو جاتا ہے،کولڈ سٹوریج کی سہولیات کی کمی کی وجہ سے ہمارے کسان فصلوں کی مناسب قیمتیں وصول نہیں کر پاتے، کولڈ سٹوریج کا نیٹ ورک دیہاتی علاقوں کے قریب منتقل کیا جانا چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ کسانوں کو بیجوں کی فراہمی کے میکانزم میں ضروری اصلاحات کی جانی چاہییں کیونکہ زیادہ تر بیج غیر رسمی ذرائع سے حاصل کئے جاتے ہیں اور اس سلسلے میں حکومت کو چاہیئے کہ وہ زرعی ریسرچ انسٹی ٹیوشن کواس کام سے منسلک کرے تاکہ کسانوں کو مناسب قیمت پر ہائبرڈ بیجوں کی دستیابی یقینی بنائی جا سکے۔