Live Updates

امریکا پاکستان کو ملنے والی سیکورٹی معاونت کی بحالی پر غور کرسکتا ہے. امریکی حکام

امریکا پاکستان کی جانب سے اس کی سہولت کاری کے لیے اٹھائے گئے ابتدائی اقدامات کو سراہتا ہے تاہم اس نازک صورتحال میں ہمیں مزید تعاون کی ضرورت ہے. ٹرمپ انتظامیہ کے سنیئررکن کی امریکی جریدے سے گفتگو

Mian Nadeem میاں محمد ندیم پیر 22 جولائی 2019 14:24

امریکا پاکستان کو ملنے والی سیکورٹی معاونت کی بحالی پر غور کرسکتا ہے. ..
واشنگٹن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔22 جولائی۔2019ء) اسلام آباد اپنی پالیسیوں میں کچھ تبدیلیاں کرتا ہے تو پاکستان کو ملنے والی سیکیورٹی معاونت کی معطلی کے فیصلے پر امریکا نظر ثانی کرسکتا ہے. ایک موقر امریکی جریدے نے ذمہ دار امریکی حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ عمران خان کے دورے کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے حکام کا کہنا ہے کہ پاکستانی قیادت کو وائٹ ہاﺅس کے دورے کی دعوت دینے کا مقصد امریکا کا اسلام آباد کو یہ پیغام دینا تھا کہ تعلقات کی بحالی اور شراکت داری قائم کرنے کے دروازے ابھی کھلے ہیں.

(جاری ہے)

ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ فی الوقت سیکیورٹی معاونت معطل ہی ہے‘واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتطامیہ نے پاکستان کو سیکورٹی معاونت جنوری 2018 میں معطل کی تھی جس کے بعد سے پہلی مرتبہ امریکی حکام نے اس کی بحالی پر بات کی ہے. حکام کا کہنا ہے کہ سیکیورٹی معاونت کی معطلی کے خاتمے کے چند شرائط ہوں گی جس میں پاکستان افغانستان اور لشکر طیبہ اور جیش محمد جیسی چند تنظیموں کے حوالے سے ہماری سیکیورٹی خدشات کو دور کرنا شامل ہے تاہم فی الوقت اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے.

انہوں نے یہ بھی کہا کہ واشنگٹن سے تعلقات کی بحالی کے لیے اسلام آباد کو دہشت گردی کے خلاف اپنی پالیسیوں میں کچھ تبدیلیاں کرنی ہوں گی. واضح رہے کہ وزیر اعظم عمران خان آج وائٹ ہاﺅس جائیں گے جہاں ان کی 3 نشستیں ہوں گی جن میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے وہ ون آن ون ملاقات اور 2 نشستیں جبکہ صدر کی ٹیم کے ساتھ ظہرانہ بھی شامل ہے. ڈونلڈ ٹرمپ کے علاوہ امریکی ٹیم میں سیکرٹری خزانہ اسٹیون منوچن، سیکرٹری کامرس ولبر روس، سیکرٹری توانائی رک پیری، نگراں سیکرٹری دفاع رچرڈ اسپینسر اور چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف جنرل جوزف ڈنفورڈ شامل ہیں.

پاکستانی وزیر اعظم کی ٹیم میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور دیگر سول و عسکری قیادت شامل ہوگی. ٹرمپ انتظامیہ کے حکام کا کہنا ہے کہ امریکی صدر افغان امن مرحلے میں پاکستان کو معاونت کرنے پر زور دیں گے اور انہیں امید ہے کہ ان دونوں کے درمیان ہونے والی بحث سود مند ثابت ہوگی. وائٹ ہاﺅس بھی اس دورے کو پاکستان کا اپنا اثرو رسوخ استعمال کرتے ہوئے طالبان کو افغان امن مرحلے پر زور دینے کا موقع سمجھتا ہے اور امریکا سمجھتا ہے کہ اس دورے سے پاکستان اپنا وہی راستہ اختیار کرے گا جو اس نے شروع کیا تھا، انہوں نے طالبان کی معاونت کی ہے اور افغان امن مرحلے کے حوالے سے ہماری چند درخواستوں پر عمل کیا ہے.

انہوں نے کہا کہ ہم انتہائی صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں اور ہمیں پاکستان کے مزید تعاون کی ضرورت ہے، انہیں اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے کی ضرورت ہے جس کی وجہ سے ہم اس دورے کو انہیں ایسا کرنے پر زور دینے کا موقع سمجھ رہے ہیں. افغانستان امریکی ایجنڈے میں پہلے نمبر پر رہے گا اور واشنگٹن نے واضح کردیا ہے کہ انہیں اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے پاکستان کے تعاون کی ضرورت ہے.

امریکی حکام کا کہنا ہے ہم پاکستان سے امن مرحلے کو آگے بڑھانے میں معاونت کرنے کا کہہ رہے ہیں، امریکا پاکستان کی جانب سے اس کی سہولت کاری کے لیے اٹھائے گئے ابتدائی اقدامات کو سراہتا ہے تاہم اس نازک صورتحال میں ہمیں مزید تعاون کی ضرورت ہے. ہم پاکستان سے طالبان کو مکمل جنگ بندی کرنے اور انٹرا افغان مذاکرات، جس میں افغان حکومت بھی شامل ہوگی، میں شرکت کرنے پر زور دینے کا کہہ رہے ہیں. پاکستان سے بحث کے دوران تجارت، توانائی میں تعاون پر بھی بحث کی جائے اور وائٹ ہاﺅس پاکستان کو خطے میں معاشی ترقی بڑھانے کے لیے مواقع پیدا کرنے پر بھی زور دے گا.
Live عمران خان سے متعلق تازہ ترین معلومات