گندا ہے پر دھندہ ہے،خواجہ سراﺅں کی ذلالت بھری زندگی کی کہانی

طرح طرح کے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے جو تشدد بھی کرتے ہیں،خواجہ سرا

Sajjad Qadir سجاد قادر بدھ 24 جولائی 2019 04:09

گندا ہے پر دھندہ ہے،خواجہ سراﺅں کی ذلالت بھری زندگی کی کہانی
لاہور۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 24 جولائی2019ء)   خواجہ سرا کس شہر،کس گاﺅں اور محلے میں نہیں ہوتے۔ ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم انہیں قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔خواجہ سرا جس بھی گھر میں پیدا ہوں اکثر والدین انہیں دھتکار دیتے ہیں،محلے والوں کو پتا چلے تو سب سے پہلے دوست اور محلے دار ہی انہیں برے کاموں کی جانب راغب کرتے اور احساس کمتری کاشکار کرتے ہیں۔

جب ان کے پاس کوئی چارہ نہیں بچتا تو گھر چھوڑ کر جہاں بھی پناہ لینے کی جگہ ملتی ہے وہیں جا بستے ہیں اور یہاں سے ان کی زندگی کا اصل سفر شروع ہوتا ہے۔یہ بے راہروی معاشرے میں بھی برائیوں کا سبب بنتی ہے۔ہر شہر میں آپ کو خواجہ سرا بہتات سے نظر آتے ہیں جنہیں بازاری زبان میں ”کھسرے“بھی کہا جاتا ہے۔

(جاری ہے)

باقی شہروں کو چھوڑ کر بھی اگرلاہور ہی کی مثال لے لی جائے تو نہر کنارے یا کئی معروف چوکوں پر سگنل پر خوب سجے سنورے خواجہ سرا شام ہوتے ہی امڈ آتے ہیں جہاں وہ رات گئے موجود رہتے ہیں۔

اب تو کچھ ٹریفک اشاروں پر گاڑیوں والوں سے پیسے لیتے بھی نظر آتے ہیں جنہیں وہ بھیک تو نہیں مگر خیرات کانام دیتے ہیں۔مگر کچھ مشہور پارکوں اور بس اسٹینڈوں کے گردونواح کے علاوہ لاہور کی نہر اور ٹھوکر نیاز بیگ کے گرد موجود خواجہ سرا خیرات لینے کے لیے نہیں بلکہ لوگوں کو پھانسنے کے چکر میں موجود ہوتے ہیں۔چونکہ یہاں درختوں کے جھنڈموجود ہیں اور اندھیرے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے راہ گیر انہیں تھوڑے سے پیسے دیتے اور گناہ کا مرتکب ہو جاتے ہیں۔

افسوس اس بات کا ہے کہ ان ایریاز سے پولیس اور ڈولفن ہر پانچ منٹ بعد گزرتی ہے مگر وہ انہیں دیکھنے کے باوجود کچھ نہیں کہتے کہ چند کالی بھیڑوں نے ان سے ”متھلی“(ماہانہ کمیشن)یا پھر روزانہ کی بنا پر پیسے لینے ہوتے ہیں۔لوکل ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں ٹھوکر نیاز بیگ پر موجود کھسروں پر پروگرام نشر کیا گیا۔جس میںکھسرے کا کہنے تھا کہ ہم اس قدر مجبور ہیں کہ اس غلط کام کے علاوہ ہمارے پاس کوئی آپشن ہی نہیں ہے۔

لوگ ہمیں قبول نہیں کرتے، دن میں ہم گھر سے باہر نہیں نکل پاتے کہ لوگ آوازیں کستے اور چھیڑتے ہیں۔روزی روٹی کرنے کے لیے بھی ہم جس جگہ یاپوائنٹ پر جائیں وہاں بھی لوگ تعان کرنے کی بجائے ہمیں تنگ کرتے ہیں۔ہمارے پاس اس ایک کام کے علاوہ اور کوئی آپشن ہی نہیں بچتا۔یہاں جو لوگ بدکاری یا برے کاموں کے لیے آتے ہیں وہ سو پچاس روپے دیتے ہیں جن سے ہمارا چولہا بھی نہیں جلتا۔

کچھ لوگ پیسے بھی نہیں دیتے اور تشدد کا نشانہ بھی بناتے ہیں۔کیا کریں ہم گندہ ہے مگر دھندہ ہے کیونکہ اس کے علاوہ ہمارا کوئی سہارا نہیں ہے۔خواجہ سرا کا کہنا تھا کہ یہ ذلالت ہے اور ہم اس گندگی سے نکلناچاہتے ہیں مگر ہمارے پاس کرنے کے لیے اور کچھ نہیں ہے۔ اگر ہمارے ساتھ حکومت تعاون کرے اور کسی اچھے روزگارکا بدوبست کردے تو ہم اس دلدل سے نکل کر باعزت زندگی گزارنے کے قابل ہو جائیں۔

متعلقہ عنوان :