Live Updates

امریکہ میں وزیراعظم عمران خان کو نہیں بلکہ آرمی چیف کو فُل پروٹوکول اورگارڈ آف آنر دیا گیا

یہ سلامی ثابت کرتی ہے کہ امریکہ وزیراعظم کے بجائے ہمارے آرمی چیف کو زیادہ اہمیت دیتا ہے

Sumaira Faqir Hussain سمیرا فقیرحسین جمعرات 1 اگست 2019 11:48

امریکہ میں وزیراعظم عمران خان کو نہیں بلکہ آرمی چیف کو فُل پروٹوکول ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ یکم اگست 2019ء) : وزیراعظم عمران خان کا دورہ امریکہ کامیاب رہا لیکن اس حوالے سے معروف کالم نگار جاوید چودھری نے اپنے حالیہ کالم میں کہا کہ امریکہ وزیراعظم کے بجائے ہمارے آرمی چیف کو زیادہ اہمیت دیتا ہے۔ اپنے کالم میں جاوید چودھری کا کہنا تھا کہ صاحب نے سگار سلگایا اور کہا کہ ہمارے وزیراعظم بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کو فون کرتے ہیں اور وہ کال ریسیو نہیں کرتا۔

وزیراعظم امریکہ میں جا کر دھرنے کی تقریر کر کے واپس آ جاتے ہیں۔ امریکی حکومت نے وزیراعظم عمران خان کو بس پر بٹھا کر طیارے سے لاؤنج تک پہنچایا لیکن آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو فل پروٹوکول دیا۔ پینٹا گون میں انہیں گارڈ آف آنر بھی دیا گیا اور 21 توپوں کی سلامی بھی ۔

(جاری ہے)

امریکہ میں 21 توپوں کی سلامی پروٹوکول کا سب سے بڑا اعزاز ہوتی ہے۔

یہ سلامی جنرل باجوہ سے پہلے آخری مرتبہ بے نظیر بھٹو کو دی گئی تھی۔ یہ سلامی ثابت کرتی ہے کہ امریکہ وزیراعظم کے بجائے ہمارے آرمی چیف کو زیادہ اہمیت دیتا ہے۔ یہ حالات بھی مارشل لاء کے لیے آئیڈیل ہیں۔ صاحب رکے۔ کافی کا سپ لیا اور پھر سگار کے لمبے لمبے کش لینے لگے۔ میں نے کرسی پر پہلو بدلا اور ڈرتے ڈرتے پوچھا کہ ’’کیا یہ حالات مارشل لاء کے لیے کافی ہیں‘‘ جس پر وہ ہنس کر بولے ’’آپ اگر ان میں پارلیمنٹ کو بھی شامل کر لیں تو تصویر مزید واضح ہو جائے گی‘ پارلیمنٹ نہیں چل پا رہی‘ سال ہو چکا ہے لیکن ابھی تک پارلیمانی کمیٹیاں مکمل نہیں ہوئیں‘ پارلیمنٹ کا ہر سیشن ہلڑ بازی کی نذر ہو جاتا ہے۔

وزیراعظم اپوزیشن اور اپوزیشن وزیراعظم سے ہاتھ ملانے کے لیے تیار نہیں‘ سلیکٹڈ کا لفظ باقاعدہ گالی بن چکا ہے اور پارلیمنٹ نے ایک سال میں کوئی قانون سازی‘ کوئی تعمیری کام نہیں کیا‘ رہی سہی کسر چیئرمین سینیٹ کی تبدیلی کے دوران پوری ہو گی۔ سیاست مزید ننگی ہو کر قوم کے سامنے آ گئی اور یہ بھی مارشل لاء کے لیے آئیڈیل حالات ہیں‘‘ وہ رک گئے۔

میں نے عرض کیا ’’کیا یہ کافی ہے‘‘ وہ بولے نہیں ’’بس عوام باقی ہیں‘ حکومتی پالیسیوں کے بدترین اثرات نومبر دسمبر میں کُھل کر سامنے آ جائیں گے جس کے بعد لوگ باہر آنا شروع کر دیں گے‘ یہ منتخب نمائندوں اور وزراء کا گھیراؤ کریں گے۔حکومت دفتروں اور گھروں تک محدود ہو کر رہ جائے گی اور وزراء عوام کا سامنا نہیں کر سکیں گے۔میں نے پوچھا ’’کیا فوج معاملات کو درست کر لے گی‘‘ وہ قہقہہ لگا کر بولے ’’سو فیصد‘ فوج چند ماہ میں ملک کو ٹریک پر لے آئے گی‘‘ میں نے پوچھا ’’کیسے؟‘‘ وہ بولے ’’ یہ شرح سود کو ساڑھے تیرہ سے ساڑھے سات فیصد پر لے آئے گی‘ رئیل اسٹیٹ‘ موبائل فون اور میڈیا انڈسٹری کو دس سال کے لیے ٹیکس ایمنسٹی دے دے گی‘حکومت ایکسپورٹس پر ٹیکس کی چھوٹ بڑھا دے گی‘ یہ اسٹاک ایکسچینج کو شوکت عزیز ماڈل پر لے جائے گی‘ یہ پشاور میٹرو سمیت تمام ترقیاتی منصوبے دو تین ماہ میں مکمل کر دے گی‘ یہ روپے کو ڈالر کے مقابلے میں مستحکم کر دے گی‘یہ ٹروتھ اینڈ ری کنسی لیشن کمیشن بنا کر جیلوں میں قید تمام سیاست دانوں کو رہا کردے گی‘ یہ لوگ پوری دنیا میں جہاں جانا چاہیں یہ چلے جائیں بس یہ سیاست نہیں کر سکیں گے‘ یہ ایف بی آر اور نیب دونوں کا سسٹم سادہ اور شفاف کر دے گی۔

میں نے آخری سوال پوچھا’’آپ کس کو اس صورت حال کا ذمہ دار سمجھتے ہیں‘‘ وہ رکے‘ لمبی سانس لی اور بولے ’’عمران خان معصوم ہیں‘ یہ ٹریپ ہو گئے ہیں‘ ان کے دوست صورت حال کو وہاں لے آئے ہیں جہاں اب مکمل ٹیک اوور کے سوا کوئی آپشن نہیں بچا‘ ملک کو اب نیشنل گورنمنٹ اور شاہ محمود قریشی بھی نہیں چلا سکیں گے‘‘۔
Live عمران خان سے متعلق تازہ ترین معلومات