Live Updates

سانحہ 8اگست کے شہداء کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں،سانحے سے متعلق قاضی فائز عیسیٰ کمیشن کی رپورٹ پر عملدرآمد کیا جائے،واقعے نے قانون کے شعبے میں بلوچستان کو پیچھے دھکیل دیا ہے واقعے سے متعلق اب تک ہونے والی تحقیقات سامنے لائی جائیں،بلوچستان اسمبلی میں حکومتی اورا پویشن ارکان کا اظہار خیال

جمعرات 8 اگست 2019 23:10

کوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 08 اگست2019ء) بلوچستان اسمبلی میں حکومتی و اپوزیشن اراکین نے سانحہ8اگست 2016ء کے شہداء کو ان کی تیسری برسی پر بھرپور خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے سانحے سے متعلق قاضی فائز عیسیٰ کمیشن کی رپورٹ پر عملدرآمد کا مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ اس سانحے میں صوبہ اپنے قابل فرزندوں سے محروم ہوگیا ، بلوچستان کے وکلاء نے عدلیہ بحالی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ، واقعے نے قانون کے شعبے میں بلوچستان کو پیچھے دھکیل دیا ہے واقعے سے متعلق اب تک ہونے والی تحقیقات سامنے لائی جائیں ۔

ان خیالات کااظہار صوبائی وزراء ظہور بلیدی ، انجینئر زمرک اچکزئی ، قائد حزب اختلاف ملک سکندر ایڈووکیٹ ، وزیراعلیٰ کے مشیر مٹھا خان کاکڑ ، ملک نصیر شاہوانی ،سید احسان شاہ ،سید فضل آغا ، نصراللہ زیرئے اوراصغر ترین نے جمعرات کے روز بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں نکتہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے کیا ۔

(جاری ہے)

بلوچستان اسمبلی کا اجلاس جمعرات کو مقررہ وقت سے ایک گھنٹے کی تاخیر سے ڈپٹی اسپیکر بلوچستان اسمبلی سردار بابر موسیٰ خیل کی زیر صدارت شروع ہوا اجلاس میں صوبائی وزراء و اراکین اسمبلی نے سانحہ8اگست سے متعلق اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ آج کا دن بلوچستان کی تاریخ کا سیاہ دن ہے سانحہ آٹھ اگست میں صوبے کے اہل دانش کو نشانہ بناکر شہید کیا گیا یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے ہمیشہ ضرورت مند طبقات سے ہونے والی ناانصافیوں اور زیادتیوں کیخلاف لڑتے رہے۔

بلوچستان جیسے پسماندہ صوبے میں انکی کمی صدیوں بعد بھی پور نہیں ہوسکتی ۔ انہوں نے کہا کہ سانحہ میں شہید ہونے والے وکلاء سینئر قانون دان تھے انہوں نے شب و روز کی محنت سے معاشرے میں اپنا ایک مقام بنایا تھا اور ان میں ہائیکورٹ کے جج، اٹارنی جنرل، پراسیکورٹر جنرل سمیت عدل وانصاف سے متعلق پوسٹوں پر تعینات ہونے کی صلاحیت موجود تھی انہوں نے کہا کہ سانحہ کی تحقیقات سے متعلق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں قائم عدالتی کمیشن کی رپورٹ پر عملدآمد کیا جائے ۔

انہوں نے کہ اس سانحے میں شہید ہونے والے وکلاء نے اپنی زندگی کے بیس سے پچیس سال عوام کو عدل و انصاف کی فراہمی کے لئے کام کیا اور چیف جسٹس آف پاکستان افتخار چوہدری کو جب ہٹایاگیا تو بلوچستان کے وکلاء نے ان کا بھرپور ساتھ دیااور عدلیہ بحالی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا سانحہ 8اگست نے بلوچستان کو قانون کے شعبے میں پیچھے دھکیل دیا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ اتنے بڑے واقعے کے بعد بھی کوئی ملزم گرفتار نہیں ہوا نہ ہی کسی کو سزا ملی اس سانحے سے متعلق رپورٹ کو منظر عام پر نہیں لایا گیا بلکہ سابق دور حکومت میں واقعے کی تحقیقات کے لئے قائم کمیشن کی رپورٹ کو دبادیا گیا انہوں نے کہا کہ سانحے کی تحقیقات سے متعلق کوئی پیشرفت نہیں ہوئی ضروری ہے کہ اب تک ہونے والی تحقیقات کے نتائج سامنے لاتے ہوئے عوام کو ان سے آگاہ کیا جائے ۔

اجلاس میں بی این پی کے پارلیمانی لیڈر ملک نصیر شاہوانی نے ایوان کی توجہ کوئٹہ شہر میں قلت آب کے مسئلے کی جانب مبذول کراتے ہوئے کہا کہ کوئٹہ شہر میں پانی کی قلت کا مسئلہ سنگین ہوتا جارہا ہے شہری علاقوں میں60فیصد جبکہ دیہی علاقوں میں 80فیصد لوگ ٹینکر مافیا کے رحم و کرم پر ہیں دشت میں نصب 13ٹیوب ویلوں سے شہر کو تو پانی فراہم کیا جارہا ہے تاہم قریب کی تمام آبادیاں ان ٹیوب ویلوں کے پانی سے محروم ہے انہوں نے کہا کہ ایم پی اے ہاسٹل میں پینے کے پانی کی قلت حکومت کی معاملے میں غیر سنجیدگی کی عکاسی ہے جمعیت علماء اسلام کے اصغر ترین نے پشین میں پی ایچ ای کی کارکردگی کو افسوسناک قرار ادیتے ہوئے کہا کہ وزیر موصوف ، سیکرٹری اور ایکسیئن سے بار بار رابطہ کرنے کے باوجود اس سنگین مسئلے کی جانب کوئی توجہ نہیں دی جارہی لوگ پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں جبکہ علاقے میں ٹینکر مافیا کا راج ہے ۔

حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کو پانی کی فراہمی یقینی بنائے ۔انہوں نے بجلی کے سنگین مسئلے کی جانب ایوان کی توجہ مبذول کراتے ہوئے کہا کہ نہ صرف بجلی کی طویل و غیر اعلانیہ لوڈشیدنگ کا سلسلہ جاری ہے بلکہ وولٹیج کی کمی بیشی کا مسئلہ بھی شدت اختیار کرگیا ہے ہمیں گیارہ گھنٹے نہیں بلکہ سات سے آٹھ گھنٹے تین فیز میں بجلی فراہم کی جائے انہوں نے کہا کہ کیسکو چیف کی عدم سنجیدگی باعث تشویش ہے کیسکو چیف کو معطل کرکے صوبے کے کسی افسر کو کیسکو چیف تعینات کیا جائے ۔

صوبائی وزیر صحت میر نصیب اللہ مری نے کہا کہ کیسکو چیف دس سے پندرہ دن میں ریٹائرہورہے ہیں بلوچستان اسمبلی میں تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر اوز وزیراعظم کے معاون خصوصی سردار یار محمد رند نے کہا کہ یقیناً بلوچستان میں بجلی کم ہونا سنگین مسئلہ ہے انہوں نے کہا کہ جب میں سینیٹر تھا تو بلوچستان سے ایک نمائندہ وفد اسلام آباد آیا اور اس وقت کی وفاقی حکومت سے صوبے کے زمینداروں کا ماہانہ بل چار ہزار روپے فکس کرایا جس کی میں نے اس وقت مخالفت کی تھی اور موقف اختیار کیا تھا کہ اس سے بلوچستان کو آئندہ پانی میں پانی اور بجلی کی کمی کا سامنا کرنا پڑے گا جو آج 35سال بعد درست ثابت ہوا انہوں نے تجویز دی کہ تمام پارلیمانی جماعتوں کے ایک ایک رکن پر مشتمل کمیٹی قائم کی جائے جو وفاق سے رجوع کرے اور بلوچستان میں اس مسئلے کے مستقبل بنیادوں پر حل کی راہ ہموار کی جاسکے انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں ریکوری نہیں ہورہی اس سے متعلق بھی ہمیں مل کر باقاعدہ نظام مرتب کرنا ہوگا۔

کیسکوچیف کی تعیناتی سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ کوشش ہوگی کہ اس شخص کو اس عہدے پر تعینات کیا جائے جس میں بلوچستان کے مسائل کو سمجھنے کی صلاحیت موجود ہو ۔ بی این پی کے اخترحسین لانگو نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ قائد ایوان اور صوبائی وزیر خزانہ نے ایوان کو یقین دہانی کرائی تھی کہ گزشتہ پانچ سال کے دوران نصب کئے گئے ٹیوب ویلوں کو فعال کیا جائے گا اس سلسلے میں واسا نے ایک سروے بھی کیا اور170ٹیوب ویلوں کی سمری ارسال کی گئی لیکن مذکورہ سمری پر عملدرآمد نہیں ہورہا یہ سمری دفاتر کے چکر کاٹ رہی ہے کیونکہ صوبائی حکومت نے پی ایس ڈی پی میں اس کے لئے کوئی رقم مختص نہیں کی انہوں نے کہا کہ مین ٹرانسمیشن لائنز پر کیسکو نے ایک روپیہ بھی خرچ نہیں کیا ہے اس وقت صوبے کی مین ٹرانسمیشن لائنز کی کیپسٹی کم ہے ٹرانسمیشن لائن کی کیپسٹی 700میگا واٹ ہے جبکہ صوبے کو 1200میگاواٹ کی ضرورت ہے وزیراعظم کے معاون خصوصی اس سلسلے میں اقدامات اٹھائیں ۔

پشتونخوا میپ کے نصراللہ زیرئے اور جمعیت علماء اسلام کے سید فضل آغا نے سردار یار محمد رند کی کمیٹی کے قیام سے متعلق تجویز کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن اورحکومت مل کر مسئلے کے حل کے لئے مشترکہ جدوجہد کریں اور وفاق سے رجوع کیا جائے تاکہ مسئلہ حل ہوسکے ۔ صوبائی وزیر خزانہ میر ظہور بلیدی نے کہا کہ بلوچستان میں بجلی کا مسئلہ روز بروز گھمبیر ہوتا جارہا ہے جس سے پورا صوبہ متاثر ہے صوبائی حکومت بجلی کی فراہمی سے متعلق اقدامات اٹھارہی ہے اور اس سلسلے میں وفاقی وزیر ایک دو روز میں بلوچستان آرہے ہیں ان سے مسائل پر بات چیت کی جائے گی انہوں نے کہا کہ کیسکو کی جانب سے سست روی ، کرپشن اور دیگرمسائل کے باعث بجلی بحران کا مسئلہ گھمبیر ہوتا جارہا ہے کیسکو کاعملہ درست طریقے سے فرائض سرانجام نہیں دے رہا ۔

انہوں نے کہا کہ زمینداروں کو درپیش مسائل کے حل کے لئے حکومت اپوزیشن کے ساتھ مل کر کوششیں کررہی ہے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں کیسکو چیف کی تعیناتی سے متعلق کوشش یہ ہوگی کہ موزوں شخص کو اس عہدے پر تعینات کیا جائے تاکہ بجلی سے متعلق عوام کے مسائل میں کمی لائی جاسکے جس پر ڈپٹی سپیکر نے اراکین کی تجاویز کو معقول قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سلسلے میں کمیٹی قائم ہونی چاہئے انہوںنے پانی کی کمی کے مسئلے پر متعلقہ محکمے کولیٹر ارسال کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ متعلقہ محکمہ بتائے کہ ٹیوب ویلز کس وجہ سے بند ہیں انہیں فعال کیا جائے ۔

اجلاس میں جمعیت علماء اسلام کے میر زابد علی ریکی نے قرار دادپیش کرتے ہوئے کہا کہ ضلع واشک رقبے کے لحاظ سے صوبے کا سب سے بڑا ضلع ہے اور اس کا شمار پسماندہ ترین اضلاع میں اس لئے ہوتا ہے کہ وہاں اب تک پختہ سڑکیں نہ ہون یکے برابر ہیں جس کی وجہ سے وہاں کے ٹرانسپورٹرز ، تاجر برادری اور عوام کو آمدورفت کے لئے شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے لہٰذا صوبائی حکومت وفاقی حکومت سے رجوع کرے کہ وہ ماشکیل تا نوکنڈی جس کا فاصلہ 110کلو میٹر بنتا ہے اس کو نیشنل ہائی وے اتھارٹی میں شامل کرکے اس کے پختہ کرنے کو یقینی بنائے تاکہ وہاں کے ٹرانسپورٹرز تاجر برادری اور عوام کو آمدورفت کے حوالے سے درپیش مشکلات کا خاتمہ ممکن ہو ۔

انہوں نے کہا کہ ضلع واشک صوبے کا سب سے پسماندہ ضلع ہے یہاں پختہ سڑکیں نہ ہونے کے برابر ہیں ماشکیل سے نوکنڈی تک 110کلو میٹر فاصلے کی حامل سڑک کو این ایچ اے میں شامل کرکے اسے جلد سے جلد پختہ کیا جائے تاکہ ماشکیل کے عوام کا اہم مسئلہ حل ۔ بی این پی کے اختر حسین لانگو نے قرار دا د کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ یہ انتہائی اہم قرار داد ہے کیونکہ جس سڑک کا تذکرہ قرار داد میں کیا گیا ہے اگر وہ سڑک پہلے بنتی تو شاید آج اس راستے سے سرحدی تجارت ہورہی ہوتی اور علاقے کے عوام کے معاشی مسائل میں کمی ہوتی ۔

صوبائی وزیر انجینئر زمرک اچکزئی نے بھی قرار داد کی حمایت کی بعدازاں ایوان نے قرار داد متفقہ طو رپر منظور کرلی ۔ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے نصراللہ زیرئے نے اپنی قرار داد پیش کرتے ہوئے کہا کہ صوبے کی مختلف کوئلہ کانوں میں کم سن بچے جن کی عمریں 17سال سے کم ہیں سے محنت و مشقت کا کام لیا جارہا ہے جو نہ صرف ایک المیہ ہے بلکہ چائلڈ ایکٹ کی کھلم کھلا خلاف ورزی بھی ہے لہٰذا صوبائی حکومت چائلڈ ایکٹ کی خلاف ورزی کرنے والے کوئلہ مائنز مالکان کے خلاف کارروائی عمل میں لائے تاکہ سترہ سال سے کم عمر بچوں کو محنت و مشقت سے بچانا ممکن ہوسکے ۔

انہوں نے کہا کہ صوبے کے مختلف علاقوں میں کوئلہ کانوں میں چائلڈ لیبر کے قوانین کی خلاف ورزی کا عمل جاری ہے اس بابت صوبائی حکومت کو اقدامات اٹھانے چاہئیں وزیر زراعت انجینئر زمرک خان اچکزئی نے محرک کو یقین دہانی کرائی کہ صوبائی حکومت چائلڈ لیبر قوانین کی خلاف ورزی کے واقعات کے تدارک کے لئے کام کررہی ہے انہوں نے کہا کہ چائلڈ ایکٹ کی خلاف ورزی پورے ملک میں جاری ہے تاہم صوبے کے معدنی شعبے میں بچوں سے مشقت لینے کے اقدامات کے تدارک کے لئے متعلقہ محکمہ کے توسط سے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں جے ڈبلیو پی کے نوابزادہ گہرا م بگٹی نے کہا کہ اس سلسلے میں نئی قانون سازی بھی ہورہی ہے قوانین کی خلاف ورزی پر چند ہزار روپے جرمانہ بہت معمولی رقم ہے جسے اب حکومت بڑھارہی ہے تاکہ چائلڈ ایکٹ کی خلاف ورزی کو روکا جاسکے بعدازاں ایوان نے قرار دا د متفقہ طو رپر منظور کرلی ۔

اجلاس میں ارسا معاہدے سے متعلق بی این پی کے ثناء بلوچ کی قرار داد محرک کی عدم موجودگی پر اگلے اجلاس کے لئے موخر کی گئی جبکہ بی این پی کے ملک نصیر شاہوانی نے زمینداروں کے مسئلے پر قرار داد پیش کرتے ہوئے کہا کہ حالیہ دنوں صوبے کے مختلف اضلاع میں ٹڈل دل کی یلغار اور حملے کے باعث لاکھوں ایکڑ زرعی اراضی پر کھڑی فصلیں تباہ ہوئیں ۔ جس کی وجہ سے زمینداروں اور کسانوں کو بھاری مالی نقصان اٹھانا پڑا جس سے صوبے کے زمینداروں اور کسانوں میں مایوسی اور بے چینی پائی جاتی ہے لہٰذا صوبائی حکومت صوبے کے زمینداروں اور کسانوں کی مالی معاونت کو یقینی بنائے تاکہ ان میں پائی جانے والی مایوسی اور بے چینی کا خاتمہ ممکن ہوسکے ۔

انہوںنے قرار دادکی موزونیت بیان کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کے دس اضلاع ٹڈی دل کے حملوں سے متاثر ہوئے ہیںحکومت متاثرہ زمینداروں کومعاوضوں کی ادائیگی یقینی بنائے اور ایک کمیٹی قائم کرے جو وفاقی وزیر خوراک سے رابطہ کرکے انہیں صورتحال سے آگاہ کرے۔ وزیر زراعت انجینئر زمرک خان اچکزئی نے کہا کہ محکمہ زراعت نے محدود وسائل میں رہتے ہوئے ٹڈل دل حملوں سے متاثرہ اضلاع میں بروقت اقدامات اٹھائے ہیں تاہم وسائل کی کمی کی وجہ سے اس پر کنٹرول نہیں کیا جاسکا محکمے کی جانب سے مشینری کی خریداری کے لئے سمری ارسال کردی گئی ہے اور آئندہ ٹڈی دل کے حملوں کو روکنے کے لئے بروقت اقدامات اٹھائے جاسکیں گے اس سلسلے میںصوبائی حکومت وفاق سے بھی رابطے میں ہے ایوان نے قرار داد متفقہ طو رپر منظور کرلی ۔

اجلاس میںبی این پی کی شکیلہ نوید دہوار نے خواتین پر تیزاب پھینکنے کے واقعات سے متعلق اپنی قرار داد ایوان میں وزیر داخلہ اور آئی جی پولیس کی عدم موجودگی پر آئندہ اجلاس تک موخر کرنے کی درخواست کی جس کے بعد قرار داد کو اگلے اجلاس تک موخر کیا گیا ۔ کوئٹہ میں گزشتہ دنوں ہونے والے بم دھماکوں سے متعلق پشتونخوامیپ کے نصراللہ زیرئے اور ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے قادر علی نائل کی کلب شدہ تحاریک التواء پر عام بحث میں حصہ لیتے ہوئے نصراللہ زیرئے نے کہا کہ گزشتہ آٹھ ماہ کے دوران صوبے میں دہشت گردی کے بے شمار واقعات ہوچکے ہیںصرف 14دنوں میں کوئٹہ میں دہشت گردی کے تین واقعات میں کئی قیمتی جانیں ضائع ہوچکی ہیں اور درجنوں لوگ زخمی ہوچکے ہیں انہوں نے کہا کہ آج امن وامان کے انتہائی اہم مسئلے پر بحث ہورہی ہے مگر ایوان میں نہ تو وزیراعلیٰ اور وزیر داخلہ موجود ہیں اور نہ ہی آفیشل گیلری میں متعلقہ سرکاری حکام موجود ہیں انہوںنے کہا کہ حکومت ہمیں بتائے کہ دہشت گردی کے واقعات کی روک تھام کے لئے اس نے اب تک کیا اقدامات کئے ہیںارکان اسمبلی کو اس سلسلے میں ان کیمرہ بریفنگ دی جائے اور حکومت دہشت گردی کے واقعات کی روک تھام کو یقینی بنانے کے لئے موثر اقدامات کے ساتھ نیشنل ایکشن پلان پر مکمل طو رپر عمل کرے ۔

قادر علی نائل نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ 6اکتوبر1999ء کوصوبائی وزیر سردار نثار علی ہزارہ پر قاتلانہ حملہ کرکے ہزارہ قبیلے کی نسل کشی کا سلسلہ شروع کیا گیا اور گزشتہ دو دہائیوں کے دوران ہمارے قبیلے کے 2ہزار سے زائد افراد کو قتل کیا گیا جن میں وکلاء ، انجینئر ، ڈاکٹر ، طلبہ ، مزدور ، دکاندار اور خواتین شامل ہیں انہوں نے کہا کہ مچھ ، خضدار اور ژوب میں ہزارہ قبیلے کی آبادی کو نقل مکانی پر مجبور کیا گیا اور بلوچستان یونیورسٹی ، ڈگری کالج ، انجینئرنگ یونیورسٹی خضدار میں آج ایک بھی ہزارہ طالبعلم زیر تعلیم نہیں ہے انہوں نے کہا کہ ہمارے پہلو میں واقع ممالک میں آنے والے انقلاب کے اثرات سے عوام کو محفوظ رکھنے کے لئے پالیسی سازوں نے درست حکمت عملی اختیار نہیں کی جس کا نتیجہ ہم آج بھگت رہے ہیں انہوں نے مطالبہ کیا کہ دو دہائیوں سے ہزارہ قوم کی جاری نسل کشی کی تحقیقات کے لئے وزارت داخلہ تحقیقاتی کمیشن قائم کرے ۔

نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عمل اور ایپکس کمیٹیوں کو فعال کیا جائے ۔بلوچستان نیشنل پارٹی کے اختر حسین لانگو نے کہا کہ امن وامان کی صورتحال پر کچھ عرصہ قبل بھی جب ایوان میں تحریک التواء پر بحث ہوئی تو تب بھی ایوان میں سناٹا تھا اور آج ایک بار پھر یہی صورتحال ہے یہاں تک کہ آفیشل گیلری میں بھی ذمہ دار حکام میں سے کوئی نظر نہیں آرہا جنہوں نے اس سلسلے میں اقدامات اور فیصلے کرنے ہیں ان کے بینچ بھی خالی پڑے ہوئے ہیں اس حکومت کے ایک سال کا ریکارڈ نکال لیں جب بھی یہاں امن وامان پر بات ہوئی تو ایوان خالی ہوتا رہا ہے انہوںنے کہا کہ بلوچستان میں دہشت گردی سے کوئی محفوظ نہیں رہا سب سے زیادہ بلوچ قوم نے لاشیں اٹھائی ہیں صرف بی این پی کے 80رہنمائوں کی ہم نے لاشیں اٹھائی ہیں سینکڑوں سیاسی کارکنوں نے جانوں کی قربانیاں دی ہیں وکلاء کی بہت بڑی تعداد میں شہادت بھی ہوئی کوئٹہ میں جگہ جگہ چیک پوسٹوں کے باوجود واقعات افسوسناک ہیں ایسے واقعات کی تحقیقات ضروری ہے ۔

ہم سب کو سر جوڑ کر اس مسئلے کے مستقل حل کے لئے سوچنا ہوگا ۔صوبائی وزیر انجینئر زمرک خان اچکزئی نے کہا کہ 2008ء سی2013ء تک عوامی نیشنل پارٹی کی9سو سے زائد لوگ شہید کئے گئے ان میں ہماری پارٹی کے سینئر صوبائی وزیر بشیر بلور ، میاں افتخار حسین کے صاحبزادے ، ہارون بلور سمیت دیگر رہنماء شامل ہیں انہوںنے کہا کہ کوئی بھی حکومت دہشت گردی کی حمایت نہیں کرتی تاہم کمزوریاں ضرور ہوتی ہیں اس وقت دشمنوں کی نظریں بلوچستان پر لگی ہیں ایسی صورتحال میں حکومت او راپوزیشن کو مل کر دہشت گردی کے واقعات کی روک تھام کے لئے اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کرنا ہوگا انہوں نے کہا کہ سابق دور حکومت میں سانحہ 8اگست سے متعلق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کمیشن کی رپورٹ دبا کر صوبائی حکومت نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا انہوں نے کہا کہ اراکین اسمبلی ایوان میں لمبی تقاریر کرتے ہیں جس سے ایوان کا قیمتی وقت ضائع ہوتا ہے ۔

صوبائی وزیر سلیم کھوسہ نے کہا کہ دو دہائیوں سے بلوچستان دہشت گردی کا شکار رہا ہے اور اس دوران دہشت گردی سے یہاں آباد کوئی قوم محفوظ نہیں رہی لیکن اس دوران سیکورٹی فورسز کے جوانوں نے اپنی جانوں کی قربانیاں دیتے ہوئے عوام کو تحفظ فراہم کیا مگر آج تک اپوزیشن کی جانب سے فورسز کی قربانیوں کو سراہا نہیں کیا گیا ہمیں تمام صورتحال کا ادراک ہے مگر فورسز کی قربانیوں کو بھی سراہا جانا چاہئے اپوزیشن کی جانب سے حکومت پر صرف تنقید کی بجائے تجاویز بھی آنی چاہئیں ۔

بلوچستان نیشنل پارٹی کے ملک نصیر شاہوانی نے کہا کہ اگر فورسز پر حملے ہوئے ہیں تو ہم نے ان واقعات کی بھی مذمت کی ہے یہاں ایوان میں فاتحہ خوانی ہوتی رہے یہ کہنا ٹھیک نہیں کہ اپوزیشن نے فورسز کی قربانیوں کا اعتراف نہیں کیابعدازاں کلب شدہ تحریک التواء کونمٹاتے ہوئے اجلاس کل تک کے لئے ملتوی کردیاگیا ۔
Live پاکستان تحریک انصاف سے متعلق تازہ ترین معلومات