صوبے بھر میں 734روزنامہ، ہفتہ روزہ، پندرہ روزہ، سہ ماہی اور ششماہی اخبارات اور رسائل شائع ہوتے ہیں،سعید غنی

اس میں سے 413اخبارات روزنامہ ہیں، اشتہارات کے لئے اخبارات کی اشاعت کی تعداد کی کوئی پابندی نہیں ہیں،وزیر اطلاعات سندھ

منگل 20 اگست 2019 19:06

صوبے بھر میں 734روزنامہ، ہفتہ روزہ، پندرہ روزہ، سہ ماہی اور ششماہی اخبارات ..
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 20 اگست2019ء) وزیر اطلاعات و محنت سندھ سعید غنی نے کہا ہے کہ اس وقت صوبے بھر میں 734 روزنامہ، ہفتہ روزہ، پندرہ روزہ، سہ ماہی اور ششماہی اخبارات اور رسائل شائع ہوتے ہیں۔ اس میں سے 413 اخبارات روزنامہ ہیں، اشتہارات کے لئے اخبارات کی اشاعت کی تعداد کی کوئی پابندی نہیں ہیںالبتہ اشتہارات ان تمام ان اخبارات کو جاری کئے جاسکتے ہیں کہ جو اے بی سی سرٹیفائیڈ ہوں اور میڈیا لسٹ پر ہوں اور ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ہم چھوٹے اخبارات کو بھی مالی طور پر مستحکم کرنے کے لئے ان کو بھی اشتہارات دیں۔

اس وقت ہم 2002 کے ایکٹ کے تحت محکمہ اطلاعات کو چلا رہے ہیں لیکن18 ویں ترمیم کے بعد صوبے نیا ایکٹ بنانے اور پالیسیاں مرتب کرنے کا اختیار آگیا ہے اور ہم نے گذشتہ برس صوبے میں ایکٹ کے حوالے سے کام کا آغاز بھی کردیا ہے تاہم اس میں کچھ صحافی تنظیموں اور پریس کلبوں اور صحافیوں کو کچھ اعتراضات تھے، جس پر کمیٹی تشکیل دی گئی ہے، جو اس ایکٹ میں ترامیم اور دیگر اشیوز پر متفقہ طور پر ایک لائحہ عمل مرتب کرکے دے گی، جس کے بعد یہ ایکٹ اسمبلی سے منظور کرایا جائے گا۔

(جاری ہے)

سندھ آروکائیز میں اس وقت جو تاریخی دستاویزات، کتابیں اور نقشہ موجود ہیں اور انہیں محفوظ کرنے کے حوالے سے جدید ٹیکنالوجی کا یہاں استعمال کیا جارہا ہے ایسا ملک کے دیگر کسی صوبے میں نہیں ہے۔وہ منگل کے روز سندھ اسمبلی میں وقفہ سوالات کے دوران مختلف ارکان کے سوال اور ان کے ضمنی سوالات کے جواب دے رہے تھے۔ وزیر اطلاعات و آرئیکائز و محنت سندھ سعید غنی نے کہا کہ اس وقت صوبے بھر میں 734 روزنامہ، ہفتہ روزہ، پندرہ روزہ، سہ ماہی اور ششماہی اخبارات اور رسائل شائع ہوتے ہیں۔

اس میں سے 413 اخبارات روزنامہ ہیں، جن میں اردو روزنامہ کی تعداد 226، انگریزی کے 49، سندھی کے 134، جبکہ گجراتی کے 3 اور بلوچی زبان کا ایک اخبار شامل ہیں۔ انہوںنے کہاکہ اخبارات کی رجسٹریشن کے لئے ڈپٹی کمشنر کے ذریعے اس کا پروسیس کرکیاسے پریس انفارمیشن ڈپارٹمنٹ (اسلام آباد) کو بھیجا جاتا ہے، جو اس کی منظوری دیتا ہے۔ ایک اور ضمنی سوال کے جواب میں وزیر اطلاعات سندھ سعید غنی نے کہا کہ اخبارات کو اے پی سی سرٹیفائیڈ اور میڈیا لسٹ بھی وفاقی ادارے پی آئی ڈی سے ہی منظوری کے بعد دی جاتی ہے اور یہ 2002 کے ایکٹ کے تحت ہے۔

انہوںنے کہا کہ صوبے میں 413 روزنامہ ضرور ہیں لیکن حقیقت ہے کہ یہ سب شائع نہیں ہوتے ہیں اور اس کے لئے جو قانون ہے اس کے مطابق ہر روزنامہ کو اپنے روزانہ کی اشاعت کی 4 کاپیاں انفارمیشن ڈپارٹمنٹ سندھ کو بھیجنا ہے اور اگر کوئی اس میں کامیاب نہیں ہوتا تو محکمہ اطلاعات اسے نوٹس اور بعد ازاں فائنل نوٹس بھیجتا ہے اور اس کے بعد اس کے خلاف مزید کارروائی اور اس کی ڈکلیریشن کی منسوخی کے لئے متعلقہ ڈپٹی کمشنر کو خط تحریر کیا جاتا ہے، جو اپنی کارروائی کے بعد مجاز ہے کہ اس اخبار کا ڈکلیریشن منسوخ کرے۔

ایک ضمنی سوال کے جواب میں وزیر اطلاعات سندھ نے کہا کہ اشتہارات کے لئے اخبارات کی اشاعت کی تعداد کی کوئی پابندی نہیں ہیں البتہ سیپرا اور دیگر ٹینڈرز کی اشاعت کے لئے 3 سے 4 زبانوں کے بڑے اخبارات کی شرائط ہے، جس کو پورا کیا جاتا ہے لیکن دیگر اشتہارات تمام ان اخبارات کو جاری کئے جاسکتے ہیں کہ جو اے بی سی سرٹیفائیڈ ہوں اور میڈیا لسٹ پر ہوں اور ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ہم چھوٹے اخبارات کو بھی مالی طور پر مستحکم کرنے کے لئے ان کو بھی اشتہارات دیں۔

تاہم چونکہ 18 ویں ترمیم کے بعد صوبے کے بعد نیا ایکٹ بنانے اور پالیسیاں مرتب کرنے کا اختیار آگیا ہے اور ہم نے گذشتہ برس صوبے میں ایکٹ کے حوالے سے کام کا آغاز بھی کردیا ہے تاہم اس میں کچھ صحافی تنظیموں اور پریس کلبوں اور صحافیوں کو کچھ اعتراضات تھے، جس پر کمیٹی تشکیل دی گئی ہے، جو اس ایکٹ میں ترامیم اور دیگر اشیوز پر متفقہ طور پر ایک لائحہ عمل مرتب کرکے دے گی، جس کے بعد یہ ایکٹ اسمبلی سے منظور کرایا جائے گا۔

انہوںنے کہا کہ اس ایکٹ میں جہاں اخبارات کی ڈکلئیریشن اور دیگر معاملات جو اس وقت وفاقی ادارے پی آئی ڈی کے پاس ہیں وہ سندھ انفارمیشن ڈپارٹمنٹ (ایس آئی ڈی) کے پاس آجائیں گے، جس سے ہم مزید اخبارات کے حوالے سے واضح پالیسیاں مرتب دی سکیں گے اور اشتہارات کے حوالے سے بھی کوئی پالیسی مرتب کی جائے گی، جس سے شفافیت کا عنصر مزید بہتر ہوسکے گا۔

ایک اور سوال کے جواب میں سعید غنی نے کہا کہ محکمہ اطلاعات سندھ کے اشتہارات کی مد میں سالانہ بجٹ کم و بیش 5 ارب روپے کا ہے۔ ایک اور ضمنی سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ گزٹ نوٹیفیکیشن مختلف محکموں کے ان کی اپنی اپنی ویب سائیڈ پر شائع ہوتے رہتے ہیں لیکن اب ہم اسے ایک ہی پلیٹ فارم یعنی محکمہ اطلاعات کی ویب سائیڈ سے سینٹرالائیزڈ طریقے سے شائع کریں۔

پیپلز پارٹی کی خاتون رکن غزالہ سیال کے ایم سوال کے جواب میں وزیر اطلاعات سندھ سعید غنی نے کہا کہ اس وقت صوبے میں 67 نیوز ایجنسیاں رجسٹرڈ ہیں اور حیرت انگیز طور پر یہ تمام کراچی میں ہی رجسٹرڈ ہیں سندھ کے دیگر کسی اضلاع میں کوئی نیوز ایجنسی رجسٹرڈ نہیں ہے ایک اور ضمنی سوال پر انہوںنے کہاکہ نیوز ایجنسیوں کی رجسٹریشن کا طریقہ کار بھی ویسا ہی جیسے اخبارات کی ڈکلئیریشن کا ہے۔

اخبارات کی ڈکلئیریشن کا اختیارات ڈی سی کی بجائے محکمے کے پاس نہ ہونے کے ایک سوال کے جواب میں وزیر اطلاعات سندھ سعید غنی نے کہا کہ وفاقی حکومت کے 2002 کے تحت ایکٹ میں یہ اختیار ڈپٹی کمشنر کے ہی پاس ہے اور چونکہ ابھی ہم نے اپنا ایکٹ منظور نہیں کرایا ہے اس لئے تمام کارروائیاں مذکورہ 2002 کے ایکٹ کے تحت ہی ابھی تک صوبے میں رائج ہیں البتہ جب صوبہ اپنا ایکٹ بنا لے گا تو ہم اس میں بھی اس سلسلے میں کوئی ترمیم لاسکتے ہیں۔

محکمہ اطلاعات کے تحت صحافیوں کی تربیت کے عزالہ سیال کے پوچھے گئے سوال کے جواب میں سعید غنی نے کہا کہ محکمہ اطلاعات کے تحت صحافیوں کو کسی قسم کی کوئی تربیت نہیں دی جاتی البتہ مختلف چینلز اور اخبارات اور دیگر ایم جی اوز اس قسم کے تربیتی پروگرام مرتب کرتی ہیں اور وہ اگر محکمہ اطلاعات سندھ کی معاونت کی درخواست دیتی ہیں تو ہم مکمل ان کو سپورٹ فراہم کرتے ہیں۔

وقفہ سوالات کے دوران اپوزیشن رکن عارف مصطفیٰ جتوئی کی جانب سے محکمہ آروکائیز کے حوالے سے سوالات کے جواب میں وزیر اطلاعات و آروکائیز سعید غنی نے کہا کہ سندھ آروکائیز میں اس وقت جو تاریخی دستاویزات، کتابیں اور نقشہ موجود ہیں اور انہیں محفوظ کرنے کے حوالے سے جدید ٹیکنالوجی کا یہاں استعمال کیا جارہا ہے ایسا ملک کے دیگر کسی صوبے میں نہیں ہے۔

انہوںنے کہا کہ ہمارے آروکائیز ڈپارٹمنٹ کی ایک خوبصورت اور تمام جدید تقاضوں سے ہمکنار عمارت کلفٹن کے علاقے میں واقع ہے اور وہاں کلہوڑو کے ادوار سے لے کر تمام تاریخی ورثہ چاہے وہ کتابوں کی صورت میں ہو یا نقشوں کی صورت میں ہو یا مختلف ادوار کی اسمبلیوں کی کارروائیوں کی صورت میں وہاں محفوظ کیا جارہا ہے اور ہم نے 18 ویں ترمین کے بعد دیگر صوبوں سے بھی سندھ کے اس قدیمی ورثہ اور یہاں کے دستاویزات کو دیگر صوبوں سے بھی یہاں منتقل کیا ہے جبکہ برطانیہ اور دیگر شہروں میں سندھ کے حوالے سے لکھی جانے والی صدیوں پرانی کتابوں کو بھی اس عمارت کی مختلف لائبریوں میں محفوظ کیا گیا ہے۔

انہوںنے کہا کہ محکمہ آروکائیز نے اس سال کے بجٹ میں 5 نئی اسکیموں پر کام کا آغاز کیا ہے، جس میں مختلف دیگر اضلاع میں اس طرح کی عمارتوں اور وہاں کے ریکارڈ کو ان ہی عمارتوں میں محفوظ کرنے کے انتظامات سمیت دیگر شامل ہیں۔ انہوںنے ایک ضمنی سوال کے جواب میں کہا کہ اب تک محکمے کی جانب سے کسی بھی یونیورسٹی سے ریسرچ کے حوالے سے کوئی معاہدہ نہیں کیا گیا ہے البتہ ہمارے یہاں صوبے اور ملک بھر کی مختلف جامعات اور کالجز کے طلبہ و طالبات اور ریسرچ کرنے والے اس عمارت کا دورہ کرتے ہیں اور انہیں ان کی ریسرچ میں محکمہ آروکائیز مکمل معاونت بھی فراہم کرتا ہے۔

ایک اور ضمنی سوال کے جوا ب میں سعید غنی نے کہا کہ تمام ریکارڈ کو محفوظ کرنے کے ساتھ ساتھ ہم ویب سائیڈ اور مختلف موبائل ایپ کے ذریعے اس کی دنیا بھر میں رسائی کے حوالے سے بھی پالیسی مرتب کررہے ہیں اور اس پر بھی کام جاری ہے۔