ریکوڈک کیس؛ عالمی ٹریبونل نے پاکستانی الزامات مسترد کر دیے

سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نواب اسلم رئیسانی کو ٹیتھیان کاپر کمپنی نے 2009ء ریکوڈک کیس میں 10 لاکھ ڈالر رشوت کی پیشکش کی تھی۔ پاکستان کا الزام

Muqadas Farooq Awan مقدس فاروق اعوان ہفتہ 31 اگست 2019 15:22

ریکوڈک کیس؛ عالمی ٹریبونل نے پاکستانی الزامات مسترد کر دیے
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 31 اگست2019ء) ریکوڈک کیس میں عالمی ٹربیونل نے پاکستانی الزامات مسترد کر دئیے ہیں۔اس حوالے سے میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ سرمایہ کاری سے وابستہ تصفیہ تنازعات کے بین الاقوامی مرکز نے پاکستان کے اس الزام کو مسترد کر دیا ہے کہ اس وقت کے وزیراعلیٰ بلوچستان نواب اسلم رئیسانی کو ٹیتھیان کاپر کمپنی نے 2009ء ریکوڈک کیس میں 10 لاکھ ڈالر رشوت کی پیشکش کی تھی۔

ٹربیونل نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ جواب دہندہ یعنی کہ پاکستان اپنے انفرادی الزامات میں ایسی بدعنوانی ثابت نہیں کر سکا جو دعویدار (ٹی ٹی سی ) سے منسوب ہو۔ریکوڈیک کیس میں پاکستان کی جانب سے عائد کردہ الزامات پر 425 صفحات پر مشتمل اپنے فیصلے میں تصفیہ تنازعات کے بین الاقوامی مرکز (آئی سی ایس آئی ڈی ) نے کہا ہے کہ اس کے سامنے دعویدار کی جانب سے اپنی سرمایہ کاری کوفائدہ پہنچانے کے لیے سرکاری اہلکاروں پر ناجائز اثر و رسوخ استعمال کرنے کا کوئی ثابت شدہ واقعہ سامنے نہیں آیا۔

(جاری ہے)

واضح رہے کہ عالمی بینک کے انٹرنیشنل سینٹر فار سیٹلمنٹ آف انویسٹمنٹ ڈسپیوٹس (اکسڈ) نے ریکوڈک ہرجانہ کیس میں پاکستان پر تقریباً 6 ارب ڈالر کا جرمانہ عائد کیا تھا۔ پاکستان کو ہرجانے کی رقم چلی اور کینیڈا کی مائننگ کمپنی ٹیتھیان کو ادا کرنا ہوگی۔ عالمی بینک کے ٹریبونل کا فیصلہ 700 صفحات پر مشتمل ہے، فیصلے کے پیرا گراف 171 میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان معاہدے کو کالعدم کرتے ہوئے بین الاقوامی قوانین سے نابلد تھی اور ان کے پاس پیشہ وارانہ مہارت بھی نہ تھی۔

فیصلے میں پاکستان کی طرف سے پیش کیے جانے والے گواہ اور ماہر ڈاکٹر ثمر مبارک مند کی گواہی کو بنیاد بناتے ہوئے کہا گیا ہے کہ حکومت پاکستان کے گواہ ثمر مبارک مند نے بیان دیا تھا کہ ریکوڈک پروجیکٹ سے ڈھائی ارب ڈالر سالانہ اور مجموعی طور پر 131 ارب ڈالر حاصل ہونا تھے لہٰذا پاکستان کی حکومت کو معاہدے کی پاسداری نہ کرنے پر 4 ارب ڈالر ہر جانہ جب کہ سود اور دیگر اخراجات کی مد میں پونے دو ارب ڈالر ادا کرنے ہوں گے جو کہ مجموعی طور پر تقریباً 6 ارب ڈالربنتے ہیں۔

وزارت قانون کے ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ پاکستان کی قانونی ٹیم کی کامیابی ہے کہ کمپنی کے 16 ارب ڈالر ہرجانے کے دعوے کو 6 ارب ڈالر تک لانے میں کامیاب ہوئی اور اس طرح 10 ارب ڈالر بچالیے۔ذرائع کے مطابق اکسڈ کے فیصلے سے حکومت پاکستان مطمئن نہیں ہے تاہم فیصلے کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد اسے چیلنج کیا جائے گا۔یاد رہے کہ ٹیتھیان کمپنی کو 1993 میں بلوچستان کے علاقے چاغی میں سونے اور تانبیکے ذخائر کی تلاش کا لائسنس جاری کیا گیا تھا لیکن سابق چیف جسٹس پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے 2011 میں بلوچستان میں سونے اور تانبے کے ذخائر کی تلاش کے لیے ٹتھیان کاپر کمپنی کو دیا جانے والا لائسنس منسوخ کرکے پروجیکٹ کالعدم قرار دیا تھا۔

کمپنی نے عدالتی فیصلے کے خلاف عالمی بینک کے ثالثی ٹریبونل سے رجوع کیا تھا اور پاکستان سے 16 ارب ڈالر ہرجانہ وصول کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔