جج ارشد ملک ویڈیو کیس: ناصر جنجوعہ ، غلام جیلانی اور خرم یوسف گرفتار

ملزمان نے سائبر کرائم عدالت میں ضمانتوں کی درخواستیں دائر کررکھی تھیں

Mian Nadeem میاں محمد ندیم پیر 2 ستمبر 2019 12:21

جج ارشد ملک ویڈیو کیس: ناصر جنجوعہ ، غلام جیلانی اور خرم یوسف گرفتار
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔02 ستمبر۔2019ء) جج ارشد ملک ویڈیو کیس میں ملزمان ناصر جنجوعہ ، غلام جیلانی اور خرم یوسف کی ضمانت قبل ازگرفتاری کی درخواست مسترد ہونے پر ایف آئی اے نے انہیں گرفتار کرلیا ہے. سائبر کرائم عدالت کے جج طاہر محمود نے جج ارشد ملک ویڈیو کیس کی سماعت کی جس میں انہوں نے ناصر جنجوعہ سمیت 3 ملزمان کی درخواست ضمانت پر فیصلہ سنایا.

(جاری ہے)

دوران سماعت وکیل صفائی نے عدالت کو بتایا کہ ملزمان کا جج کی ویڈیو سے براہ راست کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی ان لوگوں نے ویڈیو بنائی ہے‘اس موقع پر ایف آئی اے کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر نے موقف اختیار کیا کہ ملزمان کو گرفتار کرکے ان سے مزید تفتیش کی ضرورت ہے، ملزمان کے خلاف ٹھوس شواہد موجود ہیں اور ان سب کا معاملے میں خاص کردار ہے. کیس میں دلائل سننے کے بعد جج طاہر خان نے تینوں ملزمان کی عبوری ضمانتیں خارج کردیں جس کے بعد ایف آئی نے ملزمان کو کمرہ عدالت سے باہر نکلتے ہی گرفتار کرلیا.

واضح رہے کہ احتساب عدالت کے جج کی مبینہ ویڈیو کا معاملہ رواں برس چھ جولائی کو اس وقت سامنے آیا تھا جب کوٹ لکھپت جیل میں قید پاکستان کے سابق وزیراعظم نواز شریف کی بیٹی اور مسلم لیگ نون کی نائب صدر مریم نواز نے پریس کانفرنس کے دوران ارشد ملک کی مبینہ خفیہ ویڈیو سامنے لائی تھیں. ارشد ملک وہی جج ہیں جنھوں نے نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں قید بامشقت اور جرمانے کی سزا سنائی تھی تاہم فلیگ شپ ریفرنس میں انھیں بری بھی کیا تھا‘ویڈیو سامنے آنے کے بعد جج ارشد ملک نے ایک پریس ریلیز جاری کی تھی جس میں پریس کانفرنس کے دوران دکھائی جانے والی ویڈیو کو مفروضوں پر مبنی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ان کی اور ان کے خاندان کی ساکھ متاثر کرنے کی کوشش ہے.

12 جولائی کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے جج ارشد ملک کو ان کے عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا تھا جس پر وزارت قانون نے احتساب عدالت کے جج کو مزید کام کرنے سے روکتے ہوئے لا ڈویژن رپورٹ کرنے کے لیے کہا تھا.اس پر جج ارشد ملک کی جانب سے اسلام آباد ہائیکورٹ میں ایک بیان حلفی جمع کروایا گیا تھا‘اس بیانِ حلفی میں جہاں ایک مرتبہ پھر ویڈیو میں لگائے گئے الزامات کو بےبنیاد قرار دیا گیا تھا وہیں یہ الزام بھی لگایا گیا تھا کہ نواز شریف کے بیٹے حسین نواز نے العزیزیہ ریفرنس کے فیصلے کے بعد انھیں مستعفی ہونے کے لیے 50 کروڑ روپے رشوت کی پیشکش کی تھی.