افغان مسئلہ کے حتمی حل کیلئے مذاکرات جاری رکھے جائیں، چین کا امریکہ اور طالبان سے مطالبہ

جنگ بندی اور امن و امان افغانستان کے 30لاکھ سے زائد باشندوں کی متفقہ خواہش ہے، بین الاقوامی سطح پر افغان مسئلہ کے بارے میں دیئے گئے بیانات کو ذمہ دارانہ اور اصولوں کے مطابق واپس لینا چاہیے، چینی وزارت خارجہ

بدھ 11 ستمبر 2019 14:12

افغان مسئلہ کے حتمی حل کیلئے مذاکرات جاری رکھے جائیں، چین کا امریکہ ..
بیجنگ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 11 ستمبر2019ء) چین نے امریکہ اور طالبان سے مذاکرات جاری رکھنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغان مسئلہ کے حتمی حل کیلئے مذاکرات جاری رکھے جائیں، جنگ بندی اور امن و امان افغانستان کے 30لاکھ سے زائد باشندوں کی متفقہ خواہش ہے، بین الاقوامی سطح پر افغان مسئلہ کے بارے میں دیئے گئے بیانات کو ذمہ دارانہ اور اصولوں کے مطابق واپس لینا چاہیے۔

میڈیا رپورٹ کے مطابق چین نے امریکہ اور طالبان سے مطالبہ کیا کہ افغان مسئلہ کے حل کیلئے حتمی مذاکرات کیے جائیں۔ چین کی وزارت خارجہ کی ترجمان ہوا چن ینگ نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور طالبان کے نمائندوں کے درمیان مذاکرات کی معطلی پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم نے امریکہ اور طالبان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مذاکرات کے عمل کو آگے بڑھائیں اور نتائج کے بارے میں بات کریں تا کہ افغانستان میں امن کا بیج بویا جا سکے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ ہم نے فریقین سے افغانستان کے مسئلہ کے حتمی حل کیلئے شرائط تیار کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ امریکہ کی جانب سے طالبان کے نمائندوں سے مذاکرات کی منسوخی کے حالیہ امریکی بیان کے بارے میں انہوں نے نقطہ اٹھایا کہ امریکہ اور طالبان نے مذاکرات میں نمایاں کامیابی حاصل کی اور وہ امن معاہدے کے لئے اصولوں پر مبنی اتفاق رائے تک پہنچ چکے تھے۔

انہوں نے کہا کہ تاہم اب افغانستان میں امن کے لئے مذاکرات کی حالیہ صورتحال غیریقینی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جنگ بندی اور امن و امان افغانستان کے 30لاکھ سے زائد باشندوں کی متفقہ خواہش ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسی طرح بین الاقوامی برادری اور خطے کے عوام بھی امن کے خواہش مند ہیں۔ ترجمان نے کہا کہ چین افغانستان میں افغان قیادت پر مشتمل امن و امان کی بحالی کے مذاکرات اور مستحکم مذاکرات کے ذریعے افغان مسئلہ کے حل کی حمایت کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی سطح پر افغان مسئلہ کے بارے میں دیئے گئے بیانات کو ذمہ دارانہ اور اصولوں کے مطابق واپس لینا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں امن و امان کی بحالی کے لئے متعلقہ اقدامات کرنے چاہئیں۔ چین پاکستان اور افغانستان کے وزرائے خارجہ کے مابین اسلام آباد میں ہونے والے سہ فریقی مذاکرات کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تینوں ممالک کے وزرائے خارجہ کے مذاکرات ایک خصوصی بین الاقوامی خطے کے تناظر میں ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت بین الاقوامی سطح پر کیے گئے اقدامات کی وجہ سے ترقی پذیر ممالک کو بعض مسائل اور خدشات درپیش ہیں۔ ترجمان نے کہا کہ جنوبی ایشیا کے خطے کی صورتحال میں نمایاں تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اور ماضی کے بعض تنازعات دوبارہ اٹھ رہے ہیں جس سے خطے کے امن و سلامتی کے متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ مذاکرات میں شامل تینوں ممالک نے خطے میں علاقائی امن اور استحکام کے ساتھ ساتھ طویل المدتی استحکام کے حصول کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔

تینوں ممالک ایک خطے اور ایک سڑک کے منصوبے کی تعمیر اور علاقائی رابطوں کے فروغ کیلئے کئے گئے اقدامات میں اضافہ کی خواہش بھی ظاہر کی ہے۔ ترجمان نے کہا کہ تینوں ممالک پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول کے خواہش مند ہیں، اسی طرح وہ عوام کے فلاح و بہبود اور معیار زندگی میں بہتری کے ساتھ ساتھ ایک خطے، ایک سڑک کے نظریے کے مطابق اقتصادی، تجارتی، انسانی، مواصلاتی، تعمیرات کے ساتھ ساتھ دہشتگرد قوتوں کے مقابلہ، علاقائی امن و سلامتی کے تحفظ اور خطے کی ترقی وخوشحالی کے لئے بھی پرعزم ہیں۔

ترجمان نے کہا کہ یہ مذاکرات پانچ اہم نکات تک پہنچے ہیں اور جن میں سے پہلا نقطہ یہ ہے تینوں ممالک نے وزرائے خارجہ کے مذاکرات سے مثبت نتائج پر اطمینان کا اظہار کیا اور اس یقین کا بھی اظہار کیا کہ چین پاکستان اور افغانستان کا باہمی تعاون خطے میں اشتراک کار کا ایک نیا اقدام ہے جو خطے کے مقامی افراد کی امن اور ترقی کی خواہش کی تکمیل کے لئے بھی ضروری ہے اور اس سے مستقبل میں مساوات اور کارکردگی سمیت ترقی کے مشترکہ اہداف کے حصول میں مدد ملے گی۔

ترجمان نے کہا کہ سہ فریقی مذاکرات میں دوسرا نقطہ جس پر اتفاق رائے کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ تینوں فریقین اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ افغانستان کی صورتحال حتمی مرحلے میں داخل ہو چکی ہے اور ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ افغانستان سے غیرملکی افواج ذمہ داری کے تحت واپس جائیں۔ ترجمان نے کہا کہ چین اور پاکستان دونوں افغان حکومت اور طالبان کے منتظر ہیں کہ وہ امن مذاکرات کے ذریعے مسئلہ کے پرامن حل تک پہنچیں، ہم نے افغانستان سے مطالبہ کیا ہے کہ افغانستان میں افغان قیادت کے ذریعے باہمی مذاکرات کا عمل شروع کیا جائے تا کہ تمام فریقین کی حسب خواہش مستقبل کے سیاسی انتظامات کے عمل پر تبادلہ خیال کیا جائے اور ہم سمجھتے ہیں کہ افغانستان میں جلد از جلد امن و امان ضروری ہے۔

چین کے سٹیٹ قونصلر وانگ ژی نے بھی افغانستان میں مستقبل کے سیاسی انتظامات کے حوالے سے تین تجاویز دی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں دہشتگردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لئے جامع کاوشوں کی ضرورت ہے جبکہ افغانستان میں ایک دوستانہ اور پرامن خارجہ پالیسی پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ چین کا نظریہ ہے اور چین کی افغان مسئلہ کے حل کیلئے ایک تجویز ہے۔

ترجمان نے تیسرے نقطے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ تینوں فریقین اس بات پر بھی یقین رکھتے ہیں کہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں بہتری دونوں ممالک اور خطے کے امن، سلامتی اور ترقی کے لئے بھی بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ سہ فریقی مذاکرات کے بعد پاکستان اور افغانستان نے باہمی تعلقات کی بہتری کیلئے کی جانے والی کاوشوں میں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ چین پاکستان اور افغانستان کی قیادت کی سیاسی جرات کی تعریف کرتا ہے اور وہ باہمی مذاکرات، دوطرفہ تعلقات اور باہمی تعاون کے تعلقات کی بہتری کے لئے اپنی معاونت کا عمل جاری رکھنے پر تیار ہے۔ انہوں نے کہا کہ چوتھا متفق نقطہ یہ تھا کہ تینوں فریقین بیلٹ اینڈ روڈ کے منصوبے کی مشترکہ تعمیر کے فریم ورک پر سہ فریقی تعاون میں اضافہ پر بھی متفق ہیں۔

ہوا چن ینگ نے کہا کہ تینوں ممالک باہمی تعاون کے ذریعے چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے سی پیک کو افغانستان تک توسیع پر بھی متفق ہیں اور وہ کابل پشاور ایکسپریس وے کی تعمیر کے لئے بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ اس سے سماجی اور معاشرتی تعاون میں اضافہ ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ تینوں ممالک پاک افغان سرحد پر کراسنگ کے مقامات پر پینے کے پانی کولڈ سٹوریج اور طبی سہولیات پر بھی متفق ہیں۔

ترجمان نے کہا کہ سرحد پر داخلہ اور خروج کے مقامات پر منصوبوں کی تکمیل سے ثقافتی تبادلوں، باہمی رابطوں اور سفارت کاری، ثقافت، تاریخ، میڈیا اور تھنک ٹینک وغیرہ کے شعبوں میں دوطرفہ تعاون کے فروغ اور باہمی تربیت میں بھی مدد ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ تینوں ممالک کا پانچواں متفق نقطہ سلامتی اور دہشتگردی کے مقابلے کے لئے باہمی تعاون کو مزید وسعت دینا ہے۔

انہوں نے کہا کہ تینوں ممالک دہشتگردی کے مقابلے میں تعاون کے فروغ کے حوالے سے مفاہمت کی یادداشت پر عملدرآمد اور اس حوالے سے معاہدے پر بھی متفق ہیں۔ انہوں نے دہشتگردی کے مقابلہ کے لئے استعداد کار میں بہتری اور منشیات پر قابو پانے کے ساتھ ساتھ انٹیلی جنس شیئرنگ اور قانون پر عملدرآمد کے حوالے سے باہمی تعاون کے استحکام کا فیصلہ کیا ہے تا کہ مشرقی ترکستان آزادی تحریک وغیرہ جیسے دہشتگرد عناصر کو ختم کیا جا سکے۔