مقبوضہ کشمیر میں مسلسل لاک ڈاؤن سے عوامی غصے اور علیحدگی پسندانہ سوچ میں اضافہ ہوا ہے، جرمن نشریاتی ادارے کی رپورٹ

بدھ 11 ستمبر 2019 15:31

برلن (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 11 ستمبر2019ء) مقبوضہ کشمیر میں مسلسل لاک ڈاؤن سے عوامی غصے اور علیحدگی پسندانہ سوچ میں اضافہ ہوا ہے، مودی حکومت کے کشمیر سے متعلق پانچ اگست کے فیصلے کے بعد سے مقبوضہ کشمیر میںسکیورٹی لاک ڈاؤن جاری ہے،گزشتہ ماہ کے اوائل میں بھارتی حکومت نے کشمیر کو دو علاقوں میں تقسیم کر کے انہیں بھارت کی یونین ٹریٹری بنانے کا فیصلہ کیا، کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کے فیصلہ کے بعد مقبوضہ کشمیر میںغیر معمولی اور مسلسل سکیورٹی لاک ڈاؤن ہے، کسی بھی قسم کے عوامی احتجاج اور مظاہروں کو روکنے کے لیے بھارتی حکومت نے ٹیلی مواصلات کا پورا نظام بھی معطل کر رکھا ہے۔

جرمن نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق اس فیصلے سے پہلے ہی ہزاروں کی تعداد میں جو اضافی بھارتی سکیورٹی دستے تعینات کر دیئے گئے تھے، ان کی موجودگی اور مسلسل کرفیو کے باعث یہ خطہ، جو پہلے ہی دنیا کے سب سے زیادہ عسکری موجودگی والے خطوں میں شمار ہوتا ہے، کئی ہفتوں سے اضافی مسائل کا شکار ہوچکا ہے۔

(جاری ہے)

جنوبی کشمیر کے کریم آباد گاؤں کے رہائشی محمد امین نے جرمن نشریاتیکو بتایا کہ اس طرح کا سکیورٹی لاک ڈاؤن تو میں نے اپنی پوری زندگی میں پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا، ایسا تو 1990ء کی دہائی کے اوائل میں بھی نظر نہیں آیا تھا، جب کشمیری عسکریت پسند علاقے میں سرعام گھومتے پھرتے تھے۔

اب بھارتی مسلح دستے سڑکوں پر اور گلیوں میں ہر جگہ بڑی تعداد میں نظر آتے ہیں۔کشمیر میں ٹیلی کمیونیکیشن بلیک آؤٹ کو آج ایک ماہ سے زیادہ عرصہ ہو چکا ہے۔ یہ بات اب تک واضح نہیں کہ یہ کب ختم ہو گا۔ بھارتی سول اور عسکری اہلکار اس بارے میں کچھ بھی کہنے سے کتراتے ہیں۔ یوں انٹرنیٹ اور ٹیلی فون رابطے نہ ہونے کے باعث کشمیر کے عوام باقی ماندہ دنیا سے مسلسل کٹے ہوئے ہیں۔

محمد امین نے کشمیری عوام کی مشکلات اور ان کی نقل و حرکت پر عائد کڑی پابندیوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ہم نہیں جانتے کہ بھارتی حکومت آخر چاہتی کیا ہے لیکن یہ بات واضح ہے کہ حکومت یہ بالکل نہیں چاہتی کہ بیرونی دنیا کو اس کی کوئی خبر ہو کہ کشمیر میں کیا کچھ ہو رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کمشنر میشل باچیلٹ نے بھی جنیوا میں انسانی حقوق کی عالمی کونسل کے اجلاس سے اپنے خطاب میں کھل کر کہا کہ مجھے اس بات پر گہری تشویش ہے کہ بھارتی حکومت کے کشمیر میں کیے جانے والے حالیہ اقدامات کے کشمیری عوام کے انسانی حقوق پر کس طرح کے شدید اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

بھارتی حکام کا دعویٰ ہے کہ کشمیر میں حالات بہتر ہو کر معمول کی طرف آتے جا رہے ہیں۔ لیکن کشمیر کے 60 سالہ شہری محمد شعبان کا کہنا ہے کہ یہ شدید جبر خطے میں بھارت کے خلاف مزید نفرت کی وجہ بنے گا اور مسلح بغاوت کو ہوا دے گا۔ رپورٹ کے مطابق بھارتی حکومت نے اب تک کشمیر میں جو اقدامات کیے ہیں، ان سے کشمیری عوام میں پائے جانے والے غم و غصے اور علیحدگی پسندانہ سوچ میں پہلے ہی اضافہ دیکھنے میں آ چکا ہے۔

محمد شعبان کا کہنا ہے کہ سوال یہ ہے کہ بھارت ایسا کب تک کر سکے گا۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ایسے جبر کے ہمیشہ منفی اور جابروں کے لیے نقصان دہ نتائج ہی نکلے ہیں، کشمیر میں تین عشروں سے جاری مسلح تحریک حالیہ برسوں میں دوبارہ اتنی مضبوط ہوچکی ہے کہ اب اسے عام شہریوں کی حمایت بھی حاصل ہے، ایسے میں بھارتی حکومت کے کشمیر میں حالیہ اقدامات، سکیورٹی لاک ڈاؤن، کرفیو اور ٹیلی مواصلاتی رابطوں کا مسلسل منقطع رہنا صرف بھارت کے خلاف مزید نفرت کی وجہ ہی بن سکتے ہیں۔