سپریم کورٹ جو ڈیشنل کسی بھی قسم کے خوف، بدنیتی یا دباؤ کے بغیر اپنا کام جاری رکھے گی،چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ

قانون کے مطابق انصاف کی فراہمی کے علاوہ کونسل سے کوئی بھی توقع نہ رکھی جائے، اختلافی آواز کو دبانا جمہوری نظام کیلئے خطرہ ہے ، ہم آئین اور قانون کے مطابق اپنا کردار ادا کرنے کیلئے پرعزم ہیں، عدالتی عمل میں دلچسپی رکھنے والے درخواست دائر کریں جسے سن کر فیصلہ ہوگا، بخوبی آگاہ ہوں سوسائٹی کا ایک طبقہ جوڈیشل ایکٹیوزم میں دلچسپی نہ لینے پرخوش نہیں، سوسائٹی کا وہی طبقہ چند ماہ پہلے جوڈیشل ایکٹیوزم پر تنقید کرتا تھا، معاشرے کا وہ طبقہ چند لوگوں کے مطالبے پر سوموٹو لینے کوسراہتا ہے، جوڈیشل ایکٹیوزم کی بجائے سپریم کورٹ عملی فعال جوڈیشلزم کو بڑھا رہی ہے، اپنے گھر کو درست کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، ازخودنوٹس کے استعمال سے متعلق آئندہ فل کورٹ میٹنگ تک مسودہ تیار کرلیا جائے گا، اس معاملے کو بھی ایک دفعہ میں ہمیشہ کے لیے حل کر لیا جائے گا،ملک میں جاری احتساب سیاسی انجینئرنگ ہے بہت خطرناک سمجھ رہے ہیں، اس تاثر کے ازالے کے لیے اقدامات کیے جائیں،نئے عدالتی سال کے حوالے سے تقریب سے خطاب

بدھ 11 ستمبر 2019 18:47

سپریم کورٹ جو ڈیشنل کسی بھی قسم کے خوف، بدنیتی یا دباؤ کے بغیر اپنا ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 11 ستمبر2019ء) چیف جسٹس آف پاکستان کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کو مشکل ترین کام قرار دیتے ہوئے کہاہے کہ آئین صدر مملکت کو اختیار دیتا ہے کہ وہ کونسل کو کسی جج کے کنڈکٹ کی تحقیقات کی ہدایت کرے،سپریم جوڈیشل کونسل اس طرز کی آئینی ہدایات سے صرف نظر نہیں کرسکتی، صدر مملکت کی کسی جج کے خلاف شکایت سپریم جوڈیشل کونسل کی رائے پر اثر انداز نہیں ہوتی ، کونسل کسی بھی قسم کے خوف، بدنیتی یا دباؤ کے بغیر اپنا کام جاری رکھے گی، قانون کے مطابق انصاف کی فراہمی کے علاوہ کونسل سے کوئی بھی توقع نہ رکھی جائے، اختلافی آواز کو دبانا جمہوری نظام کیلئے خطرہ ہے ، ہم آئین اور قانون کے مطابق اپنا کردار ادا کرنے کیلئے پرعزم ہیں، عدالتی عمل میں دلچسپی رکھنے والے درخواست دائر کریں جسے سن کر فیصلہ ہوگا، بخوبی آگاہ ہوں سوسائٹی کا ایک طبقہ جوڈیشل ایکٹیوزم میں دلچسپی نہ لینے پرخوش نہیں، سوسائٹی کا وہی طبقہ چند ماہ پہلے جوڈیشل ایکٹیوزم پر تنقید کرتا تھا، معاشرے کا وہ طبقہ چند لوگوں کے مطالبے پر سوموٹو لینے کوسراہتا ہے، جوڈیشل ایکٹیوزم کی بجائے سپریم کورٹ عملی فعال جوڈیشلزم کو بڑھا رہی ہے، اپنے گھر کو درست کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، بطور ادارہ اس تاثر کو کہ ملک میں جاری احتساب سیاسی انجینئرنگ ہے بہت خطرناک سمجھ رہے ہیں، اس تاثر کے ازالے کے لیے اقدامات کیے جائیں، ازخودنوٹس کے استعمال سے متعلق آئندہ فل کورٹ میٹنگ تک مسودہ تیار کرلیا جائے گا، اس معاملے کو بھی ایک دفعہ میں ہمیشہ کے لیے حل کر لیا جائے گا۔

(جاری ہے)

بدھ کوچیف جسٹس نے نئے عدالتی سال کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ بخوبی آگاہ ہوں سوسائٹی کا ایک طبقہ جوڈیشل ایکٹیویزم میں عدم دلچسپی پر ناخوش ہے۔ انہوںنے کہاکہ سوسائٹی کا وہ طبقہ چند ماہ پہلے جوڈیشل ایکٹیویزم پر تنقید کرتا تھا۔ انہوںنے کہاکہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ سو موٹو پر عدالتی گریز زیادہ محفوظ ہے اور کم نقصان دہ ہے۔ انہوںنے کہا کہ معاشرے کا وہ طبقہ چند لوگوں کے مطالبے پر سو موٹو لینے کو سراہتا ہے۔

چیف جسٹس نے کہاکہ ہم آئین اور قانون کے مطابق اپنا کردار ادا کرنے کے لیے پر عزم ہیں،عدالتی عمل میں دلچسپی رکھنے والے درخواست دائر کریں جسے سن کر فیصلہ ہوگا۔ انہوںنے کہاکہ اپنی تقریر میں کہہ چکا ہوں کہ سوموٹو کا اختیار قومی اہمیت کے معاملے پر استعمال کیا جائے گا۔ انہوںنے کہاکہ جوکسی کے مطالبے پر لیا گیا وہ سوموٹو نوٹس نہیں ہوتا،جب ضروری ہوا یہ عدالت سو موٹو نوٹس لے گی۔

انہوںنے کہاکہ جوڈیشل ایکٹیویزم کی بجائے سپریم کورٹ عملی فعل جوڈیشلیزم کو فروغ دے رہی ہے۔ انہوںنے کہاکہ ہم نے اپنے گھر کو درست کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوںنے کہاکہ گزشتہ عدالتی سال کے آغاز پر ملک بھر کی عدالتوں میں زیر التواء مقدمات کی تعداد 1.81 ملین تھی،لاء اینڈ جسٹس کمیشن کے مطابق زیر التواء مقدمات کی تعداد کم ہوکر 1.78 ملین ہوگئی ہے۔

انہوںنے کہاکہ گزشتہ سال سپریم کورٹ میں 19 ہزار 751 مقدمات کا اندراج ہوا۔ انہوںنے کہاکہ گزشتہ سال عدالت عظمیٰ نے 57 ہزار 684 مقدمات نمٹائے۔ انہونے کہاکہ دنیا بھر کی سپریم کورٹ میں پہلی بار سپریم کورٹ پاکستان نے ای کورٹ سسٹم متعارف کروایا،ای کورٹ سسٹم کے ذریعے سپریم کورٹ پرنسپل سیٹ اور تمام رجسٹریاں ویڈیو لنک کے ذریعے منسلک ہوئیں۔

انہوںنے کہاکہ امریکہ میں سول ججز کی تربیتی ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا۔ انہوںنے کہاکہ از خود نوٹس کے استعمال سے متعلق آئندہ فل کورٹ میٹنگ تک مسودہ تیار کر لیا جائے گا،اس مسئلے کو بھی ایک دفعہ ہمیشہ کے لیے حل کر لیا جائے گا۔ چیف جسٹس نے سپریم جوڈیشل کونسل کی کاروائی کو مشکل ترین کام قرار دیتے ہوئے کہاکہ آئین صدر مملکت کو اختیار دیتا ہے کہ وہ کونسل کو کسی جج کے کنڈکٹ کی تحقیقات کی ہدایت کرے۔

انہوںنے کہاکہ سپریم جوڈیشل کونسل اس طرز کی آئینی ہدایات سے صرف نظر نہیں کرسکتی۔ انہوںنے کہاکہ صدر مملکت کی کسی جج کے خلاف شکایت سپریم جوڈیشل کونسل کی رائے پر اثر انداز نہیں ہوتی ،دوسری جانب کونسل اپنی کاروائی میں آزاد اور بااختیار ہے۔ انہوںنے کہاکہ گزشتہ عدالتی سال سپریم جوڈیشل کونسل میں زیر التواء پرائیویٹ درخواستوں کی تعداد 56 تھی،گزشتہ سال کونسل میں 102 شکایات کا اندراج ہوا،گزشتہ عدالتی سال میں کونسل 149 شکایات نمائی گئیں۔

انہوںنے کہاکہ اس وقت سپریم جوڈیشل کونسل میں 9 شکایات زیر التواء ہیں۔ انہوںنے کہاکہ صدر مملکت کی جانب سے دائر دو ریفرنس شامل ہیں،صدر مملکت کی جانب سے بھجوائے گئے دونوں ریفرنسز پر کونسل اپنی کارروائی کررہی ہے،سپریم جوڈیشل کونسل کے تمام ممبران اور چیئرمین اپنے حلف پر قائم ہیں۔ انہوںنے کہاکہ کونسل کسی بھی قسم کے خوف، بدنیتی یا دباؤ کے بغیر اپنا کام جاری رکھے گی۔

انہوںنے کہاکہ قانون کے مطابق انصاف کی فراہمی کے علاوہ کونسل سے کوئی بھی توقع نہ رکھی جائے۔ انہوںنے کہاکہ اختلافی آواز کو دبانے کے حوالے سے بھی آوازیں اٹھ رہی ہیں،کسی کی آواز یا رائے کو دبانا بد اعتمادی کو جنم دیتا ہے۔ انہوںنے کہاکہ بد اعتمادی سے پیدا ہونے والی بے چینی جمہوری نظام کے لیے خطرہ ہے۔ انہوںنے کہاکہ اختلاف کو برداشت نہ کرنے سے اختیاری نظام جنم لیتا ہے۔

چیف جسٹس نے کہاکہ میں نے تقاضا کیا تھا کہ انتظامیہ اور قانون ساز عدالتی نظام کی تنظیم نو کے لیے نیا تین تہی نظام متعارف کروائیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ بدقسمتی سے اس معاملے پر کچھ نہیں کیا گیاحتیٰ کہ ادارہ جاتی مذاکرات کی تجویز پر بھی غور نہیں کیا گیا۔تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اٹارنی جنرل انور منصورخان نے کہاکہ پاکستان کو دہشتگردی سمیت دیگر مسائل کا سامنا ہے،بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں آرٹیکل 367 اور 370 میں ترامیم غیر قانونی اقدامات ہیں۔

انہوںنے کہاکہ پاکستان مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اجاگر کر رہا ہے،بدقسمتی سے بھارتی سپریم کورٹ بھی اس معاملے میں تاخیری حربے استعمال کررہی ہے۔ انہوںنے کہاکہ حکومت پاکستان نے اس معاملے کو قانونی تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اقوام عالم کے سامنے اٹھایا۔اٹارنی جنرل نے کہاکہ چیف جسٹس ثاقب نثار کی ریٹائرمنٹ کے بعد موجودہ چیف جسٹس نے بھی فوری انصاف پر توجہ مرکوز رکھی،مقدمات کو فوری نمٹانے کے لیے ماڈل کورٹس کا قیام عمل میں لایا گیا۔

انہوںنے کہاکہ 10 ستمبر 2018 تک 37933 کیس زیر التواء تھے،16131 مقدمات کو اس سال نمٹایا گیاجبکہ 2 ستمبر 2019 تک 41553 میں سے 19791 مقدمات کا فیصلہ کیا گیا۔ انہوںنے کہاکہ 18 جنوری تک 2019 تک 8 ہزار 68 فوجداری مقدمات زیر التواء تھے،اس عرصے میں 3 ہزار 70 نئے مقدمات دائر کیے گئے،عالمی عدالت انصاف نے بھی پاکستان کے عدالتی نظام پر اعتماد کا اظہار کیا ہے ،اس کی بنیادی وجہ سپریم کورٹ کی جانب سے بنیادی انسانی حقوق کے مقدمات کے فیصلے ہیں،اعلی عدلیہ نے انسانی حقوق کے مقدمات کو ترجیح دی ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہاکہ مقدمات کو تیزی سے نمٹانے کے لیے عدالت عظمی میں ای کورٹ سسٹم متعارف کروایا گیا،ملک کے قانون نظام میں قدم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے،انصاف کے شعبے میں دیگر اہم اصلاحات بھی کی گئیں،قانون کی حکمرانی میں سب سے بڑی رکاوٹ کرپشن ہے،کرپشن نے قیام پاکستان سے ہی عدالتی نظام کو جکڑ رکھا ہے،ماتحت عدلیہ، پولیس، وکلاء اور پراسیکیوٹرز کی سطح پر جدید نظام کا نفاذ وقت کی اہم ضرورت ہے۔

انہوںنے کہاکہ ایسا نظام قائم کیا گیا جس میں کرپشن کے لیے کوئی جگہ نہ ہو۔ سید امجد شاہ وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل نے کہاکہ ماتحت عدلیہ میں انصاف کی فراہمی کھبی تسلی بخش نہیں رہی،ماتحت عدلیہ کی کارکردگی میں بہتری لائی جائے۔انہوںنے کہاکہ لوگوں کو مقدمات کے فیصلوں کیلئے لمبا انتظار کرنا پڑتا ہے،واٹس آپ پر ججز کے تبادلے کے احکامات سے اجتناب کیا جائے۔

انہوںنے کہاکہ ماڈل کورٹس میں مقدمات کی کاروائی کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ انہوںنے کہاکہ آئین کی بالادستی کیلئے ہر ادارہ اپنے حدود میں راہ کر کام کرے۔ انہوںنے کہاکہ سابق وزیراعظم کے مقدمات کی جلد شنوائی کی گئی۔ انہوںنے کہاکہ جس آمر نے دو مرتبہ آئین توڑا اس کا مقدمہ سالوں سے فیصلہ طلب ہے،ازخود نوٹس میں بھی اپیل کا حق دیا جائے۔ انہوںنے کہاکہ جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے خلاف جوڈیشل کونسل کی کاروائی چیلنج ہوچکی ہے،جوڈیشل کونسل کے خلاف درخواستوں کو فل کورٹ کے سامنے لگایا جائے۔ انہوںنے کہاکہ پولیس کی حراست میں لوگوں کی اموات کے واقعات تشویشناک ہیں،سپریم کورٹ سے سزا یافتہ پولیس افسران آج بھی اپنے اعہدوں پر کام کر رہے ہیں۔