ججز کے فیصلوں پر وہ لوگ تبصرہ کرتے ہیں جنہیں قانون کا پتہ ہی نہیں ہوتا،ہم کبھی امید نہیں چھوڑ سکتے، ہم نے یہیں رہنا ہے ‘ چیف جسٹس پاکستان

ہم نے حقیقت پسند بننا ہے اور آنکھیں بند نہیں کرنی،اس سسٹم میں رہتے ہوئے ہم نے کامیابیاں حاصل کی ہیں،مثبت سوچ کیساتھ آگے بڑھنا ہوگا رویوں کو تبدیل کئے بغیر بہتری نہیں لائی جاسکتی،بہتری لانے کیلئے ادارے، رویے اورسوچ کو ایک پیج پرلانا ہوگا‘ جسٹس آصف سعید کھوسہ

ہفتہ 14 ستمبر 2019 20:55

ججز کے فیصلوں پر وہ لوگ تبصرہ کرتے ہیں جنہیں قانون کا پتہ ہی نہیں ہوتا،ہم ..
لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 14 ستمبر2019ء) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا ہے کہ رویوں کو تبدیل کئے بغیر بہتری نہیں لائی جاسکتی،بہتری لانے کیلئے ادارے، رویے اورسوچ کو ایک پیج پرلانا ہوگا، جس دور سے ہم گزر رہے ہیں اس میں تاریخ بن نہیں رہی بلکہ حقائق اجاگرہورہے ہیں،ہمارے پاس بہترین ججزکام کررہے ہیںمگرتاریخ دان بتائیں گے ہمارے ججز فیصلے کرتے ہوئے معیار پریاتعداد پر یقین رکھتے تھے،جب میں نے اپنی وکالت شروع کی تب ایس ایم ظفر ایک چمکتے ستارے کی طرح تھے ،میں اپنے شاگردوں کو کہتا تھا اگر تمہیں مجھ جیسا بننا ہے تو ایس ایم ظفر جیسے بنو۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے مقامی ہوٹل میں معروف قانون دان ایس ایم ظفرکی کتاب ’’ہسٹری آف پاکستان ری انٹرپریٹڈ ‘‘کی تقریب رونمائی میں شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔

(جاری ہے)

تقریب میں قائمقام چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس مامون رشید شیخ،لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شاہد وحید خان ، سابق صدر سپریم کورٹ بار علی ظفر ، جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما لیاقت بلوچ، سابق چیئرمین سینیٹ وسیم سجاد ،سابقہ سیکرٹری خارجہ شمشاداحمد خانسمیت دیگر نے بھی خطاب کیا ۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ تاریخ کی خوبصورتی یہ ہے کہ اسے اپنے انداز میں بیان کیا جا سکتا ہے،جس دور سے ہم گزر رہے ہیں اس میں تاریخ بن نہیں رہی بلکہ حقائق اجاگرہورہے ہیں،تاریخ دان ہی ہمارے موجودہ دور کے بارے میں بتائیں گے،میرا عہدہ موجودہ صورتحال پر بات کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ہمارے معاشرے میں بہترین وکلاء موجود ہیں،مگرتاریخ دان بتائیں گے کہ آج کے وکلاء بہترین دلائل دیتے تھے،ان کاانداز بیاں اچھا تھایا وہ ہاتھ سے دلائل دینا جانتے تھے۔

اپنے رویوں کو تبدیل کئے بغیر بہتری نہیں لائی جاسکتی،بہتری لانے کیلئے ادارے، رویے اورسوچ کو ایک پیج پرلانا ہوگا،اسی فارمولے کے تحت پاکستانی عدلیہ نے مقدمات نمٹانے کا ریکارڈ قائم کیا۔خصوصی فوجداری ٹرائل عدالتوں نے 137دنوں میں 36000 ٹرائل نمٹادئیے گئے،نئے قوانین، اضافی اخراجات، موجودہ انفراسٹرکچر کے ساتھ ہی اہداف مکمل کرنا خوش آئند ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اس کتاب میں پاکستان کی تاریخ کا جامع احاطہ کیا گیا ہے۔ کتاب پڑھتے ہوئے میرا خیال تھا کہ مصنف نے حالیہ حالات کو کیے قلمبند کیا ہو گا۔ہمارے ملک میں ایسے تعلیمی ادارے بھی ہیں جہاں سیکنڈ ایئر کا طالب علم فرسٹ ایئر کے طالب علم کو پڑھا رہا ہے، جب میں نے اپنی وکالت شروع کی اس وقت ایس ایم ظفر ایک چمکتے ستارے کی طرح تھے۔

میں اپنے شاگردوں کو کہتا تھا اگر تمہیں مجھ جیسا بننا ہے تو ایس ایم ظفر جیسے بنو۔ 99 فیصد لوگوں نے ہمارے فیصلے پڑھے ہی نہیں ہوتے کیونکہ انہیں قانون کا پتہ ہی نہیں ہوتا۔ ججز کے فیصلوں پر وہ لوگ تبصرہ کرتے ہیں جنہیں قانون کا پتہ ہی نہیں ہوتا۔انہوں نے کہا کہ ہم کبھی امید نہیں چھوڑ سکتے، یہی ہمارا ملک ہے، ہمارا مسکن ہے اور ہم نے یہیں رہنا ہے اس لیے ہم نے حقیقت پسند بننا ہے اور آنکھیں بند نہیں کرنی۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اس سسٹم میں رہتے ہوئے ہم نے کامیابیاں حاصل کی ہیں، جج محنت کر کے ایمانداری سے فیصلے دیتے ہیں، مثبت سوچ کے ساتھ ہمیں آگے بڑھنا ہو گا۔انہوں نے شرکاء کو بتایا کہ ایس ایم ظفر اور میرے سسر آپس میں دوست تھے ،میرے سسر ہمیشہ مجھ سے ایس ایم ظفر کے بارے میں پوچھتے تھے ۔ایس ایم ظفر صاحب نے مجھ سے اس کتاب کے بارے میں میرے نظریات پوچھے ،مجھے اس کتاب کے بارے بہت کچھ لکھنا تھا لیکن کام کی زیادتی کی وجہ سے نہیںلکھ سکا۔ہم پاکستان کی مختلف تواریخ پڑھتے ہیں کیونکہ ہمارے پاس مختلف کتابیں ہیں،اس کتاب کے پہلے حصے میں تمام حقائق بیان ہیں۔تقریب سے دیگر نے بھی خطاب کیا ۔