طالبان کو جتنی شدت سے اب نشانہ بنایا جارہا ہے اتنی شدت سے پہلے کبھی نشانہ نہیں بنایا گیا تھا: ڈونلڈ ٹرمپ

ایک عظم امریکی فوجی سمیت 12افراد کو مارنا اچھا خیال نہیں تھا، طالبان جانتے ہیں کہ انہوں نے بہت بڑی غلطی کی ہے اور اب وہ یہ نہیں جانتے کہ اسکا حل کیا کریں: امریکی صدر کا ٹویٹ

Usman Khadim Kamboh عثمان خادم کمبوہ اتوار 15 ستمبر 2019 00:13

طالبان کو جتنی شدت سے اب نشانہ بنایا جارہا ہے اتنی شدت سے پہلے کبھی ..
واشنگٹن (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین ۔ 14 ستمبر2019ء) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ طالبان کو جتنی شدت سے اب نشانہ بنایا جارہا ہے اتنی شدت سے پہلے کبھی نشانہ نہیں بنایا گیا تھا۔ انہوں نے اپنے تویٹر پیغام میں کہا ہے کہ ایک عظم امریکی فوجی سمیت 12افراد کو مارنا اچھا خیال نہیں تھا، طالبان جانتے ہیں کہ انہوں نے بہت بڑی غلطی کی ہے اور اب وہ یہ نہیں جانتے کہ اسکا حل کیا کریں۔

ٹرمپ نے کہا کہ مذاکرات کرنے کے اس سے کہیں بہتر طریقے تھے لیکن طالبان نے غلطی کی۔
 اس سے قبل صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغان جنگ کے حوالے سے کہا تھا کہ طالبان کو بدترین طریقے سے ایسا نشانہ بنائیں گے جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق ٹرمپ نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ گزشتہ چار دنوں میں امریکی فورسز نے دشمن کو ایسا بدترین نشانہ بنایا ہے جو اس سے پہلے کبھی نہیں بنایا گیا تھا اور اس کو جاری رکھیں گے۔

(جاری ہے)

ڈونلڈ ٹرمپ نے نشانے بنانے کی نوعیت کی وضاحت کیے بغیر کہا کہ اس کے لیے گزشتہ ہفتے افغانستان میں ایک حملے میں امریکی فوجی کی ہلاکت کے ردعمل میں طالبان سے مذاکرات منسوخی کے بعد حکم دیا گیا تھا۔ دوسری جانب امریکا کے انکار کے بعد طالبان کا روس سے رابطہ کر لیا ہے۔ طالبان کا ایک وفد روس پہنچ گیا ہے جہاں ان کی ملاقات روسی صدر کے نمائندے سے ہوئی ہے۔

تفصیلات کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے افغان طالبان کیساتھ مذاکرات ختم کیے جانے کے اعلان کے بعد افغان طالبان نے سیاسی پینترا بدل لیا ہے اور اب طالبان کا وفد روس پہنچ گیا ہے۔ طالبان رہنما ملا شیر عباس نے کہا ہے کہ ہم جب بھی کسی نتیجے پر پہنچتے ہیں امریکا مذاکرات سے فرار ہوجاتا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ہم نے امریکا پر نہیں امریکا نے افغانستان پر جنگ مسلط کی، وہ ہمارے ہزار لوگ مار سکتے ہیں تو ہمیں بھی ان کے ایک دو مارنے کا حق ہے، اگر امریکا مذاکرات نہیں چاہتا تو ٹھیک ہے ہم سو سال تک بھی لڑسکتے ہیں۔