تفصیلی خبر

حکومت کا محور پاکستان کی عوام ہے، معیشت کی بہتری اور اسے دستاویزی بنانے کے لئے ڈٹ کر کھڑے ہیں، پرامید ہیں کہ رواں سال بڑھوتری کی شرح 3فیصد سے زیادہ ہو گی ،گزشتہ دو ماہ میں حسابات جاریہ کے خسارے میں مجموعی طور پر 73فیصد کمی آئی ہے،جولائی اور اگست کے مہینے میں ٹیکس وصولیوں کی شرح میں گزشتہ سال کے اس عرصے کے مقابلے میں 15فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے، ان لینڈ ٹیکس ریونیو کی مد میں 38فیصد اضافہ ہوا ہے، نان ٹیکس ریونیو کی مد میں حکومت کو ایک ہزار ارب روپے ملنے کی توقع ہے،آئی ایم ایف پاکستان کا دوست اور شراکت دار ہے ، آئی ایم ایف وفدکا دورہ معمول کے مطابق ہے، ، عوام پرامید رہے جو کچھ بھی کیا جارہا ہے یہ ان کے فائدے کے لئے ہیں‘ حکومتی اقدامات کے مثبت نتائج سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں وزیراعظم کے مشیربرائے خزانہ واقتصادی امورڈاکٹرعبدالحفیظ شیخ کی پریس کانفرنس

اتوار 15 ستمبر 2019 19:10

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 15 ستمبر2019ء) وزیراعظم کے مشیربرائے خزانہ واقتصادی امورڈاکٹرعبدالحفیظ شیخ نے کہاہے کہ حکومت کا محور پاکستان کی عوام ہے، معیشت کی بہتری اور اسے دستاویزی بنانے کے لئے ڈٹ کر کھڑے ہیں، پرامید ہیں کہ رواں سال بڑھوتری کی شرح 3فیصد سے زیادہ ہو گی ،گزشتہ دو ماہ میں حسابات جاریہ کے خسارے میں مجموعی طور پر 73فیصد کمی آئی ہے،جولائی اور اگست کے مہینے میں ٹیکس وصولیوں کی شرح میں گزشتہ سال کے اس عرصے کے مقابلے میں 15فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے، ان لینڈ ٹیکس ریونیو کی مد میں 38فیصد اضافہ ہوا ہے، نان ٹیکس ریونیو کی مد میں حکومت کو ایک ہزار ارب روپے ملنے کی توقع ہے،آئی ایم ایف پاکستان کا دوست اور شراکت دار ہے ، آئی ایم ایف وفدکا دورہ معمول کے مطابق ہے، حکومت آسانیاں فراہم کرے گی لیکن جن لوگوں پر ٹیکس دینا لازم ہے انہیں ضرور دینا چاہیے اس پر کوئی سودے بازی نہیں ہو گی، عوام پرامید رہے جو کچھ بھی کیا جارہا ہے یہ ان کے فائدے کے لئے ہیں‘ حکومتی اقدامات کے مثبت نتائج سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔

(جاری ہے)

اتوار کو یہاں چیئرمین ایف بی آر سید شبر زیدی اور سیکرٹری خزانہ نوید کامران بلوچ کے ہمراہ یہاں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ جب حکومت برسراقتدار آئی تو ابتر اقتصادی صورتحال کا سامنا تھا، پاکستان دیوالیہ ہونے کی طرف جا رہا تھا، اقتصادی اعشاریے خراب صورتحال کی نشاندہی کر رہے تھے، بیرونی معیشت کی صورتحال بھی کافی سنجیدہ تھی، اس بحران سے نمٹنے کے لئے دوست ممالک اور ایجنسیوں کو متحرک کیا گیا، ہمارا مقصد زرمبادلہ کے ذخائر کو بڑھانا اور معیشت کا استحکام ہے۔

انہوں نے کہا کہ نئے مالی سال کیلئے کفایت شعاری کا بجٹ دیا گیا جس میں حکومتی اخراجات میں کمی لائی گئی، دفاعی بجٹ کو منجمد رکھا گیا، کابینہ کی تنخواہوں میں بھی کمی کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ ریونیو میں اضافہ کے لئے کافی اقدامات اٹھائے گئے ہیں، رواں سال 5500ارب ریونیو کا ہدف مقرر کیا گیا ہے، ہماری کوشش ہے کہ زیادہ سے زیادہ ٹیکس جمع کیا جائے تا کہ بیرونی خسارہ کم کیا جائے۔

وزیراعظم کے مشیر نے کہا کہ گزشتہ سال حسابات جاریہ کا خسارہ بہت زیادہ تھا، حکومت نے حسابات جاریہ کا خسارہ 19.5ارب ڈالر سے کم کر کے 13ارب ڈالر کی سطح پر لایا گیا، جولائی میں برآمدات میں اضافہ اور درآمدات میں کمی آئی ہے۔ گزشتہ دو ماہ میں حسابات جاریہ کے خسارے میں مجموعی طور پر 73فیصد کمی آئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جولائی اور اگست کے مہینے میں ٹیکس وصولیوں کی شرح میں گزشتہ سال کے اس عرصے کے مقابلے میں 15فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔

جولائی اگست 2018ء میں 509ارب روپے کے ٹیکس محصولات حاصل ہوئے، رواں سال جولائی اور اگست میں 580ارب روپے حاصل کیے گئے۔ اسی طرح ان لینڈ ٹیکس کی مد میں 38فیصد اضافہ ہوا ہے۔ حفیظ شیخ نے کہا کہ ٹیکس فائلرز کی تعداد 19لاکھ سے بڑھا کر 25لاکھ تک کر دی گئی ہے۔ اسی طرح سیلز ٹیکس ریفنڈ کی مد میں 2015ء سے زیرالتواء کیسوں کو نمٹایا گیا اور پہلے مرحلے میں 22ارب روپے کی ادائیگی کی گئی ہے، اس حوالے سے حکومت نے اپنے وعدوں پر عملدرآمد کیا ہے، اس وقت ریفنڈ کا کوئی کیس نہیں ہے، اسی طرح ایک لاکھ روپے تک انکم ٹیکس ریفنڈ کی مکمل ادائیگی ہو رہی ہے۔

برآمد کنندگان کی سہولت کے لئے ریفنڈ کے حوالے سے نظام 23اگست سے فعال ہے اور سارے مراحل شفاف طریقے سے ہو رہے ہیں۔ وزیراعظم کے مشیر نے کہا کہ سرکاری شعبوں میں چلنے والے وہ ادارے جو بہتر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر رہے ان کی نجکاری کے عمل میں تیزی لائی گئی ہے۔ 10کمپنیوں کی نجکاری کا عمل فاسٹ ٹریک کی بنیاد پر ہو رہا ہے، سرکاری ملکیتی، کاروباری اداروں کے لئے سرمایہ پاکستان کے نام سے ادارہ بنایا گیا ہے،20اداروں کی ری سٹرکچرنگ کی جا رہی ہے۔

نیشنل بینک آف پاکستان، سٹیٹ لائف آف کارپوریشن اور اسی طرح کے دیگر اداروں کی نجکاری کا سوچا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پیداواریت میں اضافہ کے لئے حکومت خصوصی توجہ دے رہی ہے، گردشی قرضوں میں خاطر خواہ کمی لائی گئی، بجلی چوری کی مد میں 100ارب روپے کی بچت ہوئی ہے، صرف جولائی کے مہینے میں 10ارب روپے کی چوری روکی گئی۔ انہوں نے کہا کہ براہ راست ٹیکسوں کے علاوہ نان ٹیکس ریونیو میں اضافہ بھی حکومتی ترجیحات میں شامل ہے۔

سیلولر لائسنس کے معاملے میں اچھی پیشرفت ہوئی ہے، جاز اور ٹیلی نار سے 70ارب روپے وصول کیے گئے ہیں اور مزید 70ارب روپے ملنے کی امید ہے۔ اسی طرح زونگ سے بھی 70ارب روپے وصول ہونگے، موبائل کمپنیوں سے مجموعی طور پر 200ارب روپے کا ریونیو حاصل ہو گا۔ آر ایل این جی پلانٹس کی نجکاری جنوری میں ہو گی جس سے 300ارب روپے ملنے کی توقع ہے۔ وزیراعظم کے مشیر نے کہا کہ نان ٹیکس ریونیو کی مد میں حکومت کو ایک ہزار روپے ملنے کی توقع ہے، اس سے حکومت کو قرضے حاصل کرنے میں کمی اور مفاد عامہ کے کاموں میں زیادہ اخراجات میں مدد ملے گی۔

وزیراعظم کے مشیر نے کہا کہ حکومت نے سٹیٹ بینک سے کوئی قرضہ نہیں لیا ہے اور اسی طرح گزشتہ دو ماہ میں کسی بھی ضمنی گرانٹ کی منظوری نہیں دی گئی۔ ایکسچینج ریٹ کی وجہ سے بیرونی قرضوں میں صرف 24ارب روپے کا اضافہ ہوا۔ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہاکہ حکومت نے رواں سال اقتصادی بڑھوتری کے لئے 2.4فیصد کا ہدف مقرر کیا ہے جسے آسانی سے حاصل کیا جائے گا لیکن ہمیں توقع ہے کہ بڑھوتری کی شرح اس سے زیادہ ہو گی کیونکہ زراعت کے لئے حکومت نے جو اقدامات کیے ہیں اس کے اچھے اثرات سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔

گزشتہ پانچ برسوں میں زراعت کے شعبے میں منفی بڑھوتری ہوئی ہے، ایکنک نے حال ہی میں زراعت کے شعبے کے لئے 250ارب روپے کے منصوبوں کی منظوری دی ہے، ہم پرامید ہیں کہ رواں سال بڑھوتری کی شرح 3فیصد سے زیادہ ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کا محور پاکستان کی عوام ہے، معیشت کی بہتری اور اسے دستاویزی بنانے کے لئے ہم ڈٹ کر کھڑے ہیں۔ حکومت آسانیاں فراہم کرے گی لیکن جن لوگوں پر ٹیکس دینا لازم ہے انہیں ضرور دینا چاہیے اس پر کوئی سودے بازی نہیں ہو گی۔

عوام پرامید رہے جو کچھ بھی کیا جارہا ہے یہ ان کے فائدے کے لئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے کاروبار میں آسانیاں پیدا کرنے کے لئے اقدامات جاری رکھے ہوئے ہیں، حکومتی اقدامات کے نتیجے میں روپے کی قدر میں استحکام آرہا ہے۔ براہ راست بیرونی سرمایہ کاری میں بھی بتدریج اضافہ ہو گا۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ دنیا کے تمام ممالک میں احتساب کا نظام موجود ہوتا ہے، ہمیں امید ہے کہ یہ عمل اس انداز میں جاری و آگے بڑھے گا جس سے کاروبار پر کوئی فرق نہ پڑے۔

ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ مہنگائی کنٹرول کرنا ہمارے لئے چیلنج ہے اور اس مقصد کے لئے جامع انداز میں اقدامات بھی کیے گئے ہیں۔ حکومت نے برآمدی صنعت کے لئے سینکڑوں درآمدی خام مال اشیاء پر ٹیکس کم یا مکمل ختم کیا ہے۔ آئی ایم ایف کے وفد کے دورہ سے متعلق سوال پر وزیراعظم کے مشیرنے کہا کہ یہ معمول کا دورہ ہے اور پہلے سے طے شدہ ہے، آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستان کے جو معاملات طے ہوئے ہیں اس پر سہ ماہی بنیادوں پر جائزہ شامل ہے۔

آئی ایم ایف پاکستان کا دوست اور شراکت دار ہے۔ نجکاری سے متعلق سوال پر وزیراعظم کے مشیر نے کہا کہ اگر ورکروں کے مفادات کا تحفظ یقینی بنایا جائے اور شفاف طریقے سے نجکاری ہو تو کوئی بھی اس کی مخالفت نہیں کرتا، حبیب بینک اور یو بی ایل سمیت کئی اداروں کی اسی طرح نجکاری کی گئی۔ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ حکومت کی کوشش ہے کہ گرے ایریا سے نکلنے کے لئے جو اقدامات کرنے ہیں وہ موثر انداز میں کیے جائیں، انسداد منی لانڈرنگ سمیت دیگر اقدامات پر سختی سے عملدرآمد کیا جارہا ہے یہ عمل احسن انداز میں آگے بڑھ رہا ہے۔

ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ پاکستان میں جتنا ٹیکس حاصل ہو رہا ہے وہ ملکی آمدن کا گیارہ فیصد ہے یہ دنیا میں سب سے کم ترین سطح ہے، ہماری کوشش ہے کہ ان لوگوں پر ٹیکس نہ لگایا جائے تو پہلے سے ٹیکس دے رہے ہیں، اسی طرح کھانے پینے کی اشیاء پر کوئی ٹیکس عائد نہیں کیا گیا ہے۔ چیئرمین ایف بی آر نے اس موقع پر کہا کہ ٹیکس فائلرز کی تعداد 19لاکھ سے بڑھا کر 26لاکھ ہو گئی ہے جس سے حکومت کو 5ارب روپے تک اضافی ٹیکس حاصل ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ٹوبیکو مینوفیکچرز کے ساتھ ہماری کامیاب میٹنگ ہوئی ہے، لائسنسنگ اور دیگر معاملات میں پیپرا کے قوانین کی پاسداری کو یقینی بنایا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹوبیکو کی مد میں 2اور 3سلیبز کا سلسلہ ختم ہوا ہے۔ ایف بی آر ٹیکس دہندگان کی سہولت کے لئے مختلف اقدامات کر رہا ہے، اب فائلرز موبائل کے ذریعے اپنے ریٹرن جمع کرا سکتے ہیں۔