چیف جسٹس جسٹس سیدہ طاہرہ صفدر کا ہائی کو رٹ میں الوادعی عشائیہ سے خطاب

اتوار 15 ستمبر 2019 23:40

کوئٹہ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 15 ستمبر2019ء) عدالت عالیہ کے اعلامیہ کے مطابق چیف جسٹس جسٹس سیدہ طاہرہ صفدر نے ہائی کو رٹ میں اپنے الوادعی اعشائیہ میں ہائی کورٹ کے جج صاحبان و دیگر ڈسٹرکٹ جوڈیشری کے جج سے خطاب میں مہمانوں کے آنے کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک الوداعی ملاقات ہے۔ وہ سفر جو سالوں پر مُحیط ہے اب ختم ہونے کے قریب ہے۔

یادوں کا ایک ہجوم ہے جو یقیناً خوشگوار ہے۔ آپ،جو کے ابھی جوانی کے دور میں محوِسفر ہو،کو اس گزرے ہوئے کل سے کم ہی دلچسپی ہوگی لیکن ایک مہموم سی خواہش ہے کہ اپنے تجربات سے جو کچھ حاصل ہوا اس کا کچھ حصہ آپ کو منتقل کیا جائے،کیونکہ عقلمندی اسی میں ہے کہ دوسروں کے تجربات سے نہ صرف فائدہ اٹھایا جائے بلکہ ان کی بنیاد پراپنی راہ کا بہتر طور پر تعین کیا جائے۔

(جاری ہے)

1982 میں جب یہ سفر شروع ہوا تو حالات اتنے بہتر نہ تھے جتنا کہ اب ہیں۔ 37 سال پیچھے ماضی کے دریچوں میں جھانکیں تو یاداشت میں اب بھی وہ چھوٹا سا کمرہ ہے جو ہر طرح کی سہولت سے مبرا تھا۔ نہ chamber نہ دیگر سہولیات، اور نہ آنے جانے کے لیے گاڑی۔ ان سب پہ سوا stenographer کی سہولت بھی نہ تھی۔ گواہوں کے بیانات کو قلمبند کرنے، order sheetکے لکھنے سے لیکرFinal Judgment بھی اپنی تحریر میں ہاتھ سے لکھنا، موجودہ وقت میںcomputer اور اس سے منسلک سہولیات کی موجودگی میں ناقابلِ یقین محسوس ہوتا ہے۔

مقدمات کی تعداد ہزار کو چھوتی ہوئی اگر موجودہ وقت میں مقدمات کی تعداد فی عدالت سے موازنہ کیا جائے تو ناقابل ِیقین حد تک دشوار محسوس ہوتا ہے کہ وہ کون سی طاقت تھی جس کے بًل پر تمام کام نہ صرف انجام دیا جاتا تھا بلکہ نتیجہ بھی اطمینان بخش ہوتا تھا۔ یقیناً یہ اللہ ہی کی مدد ہے جو نیک نیتی سے اپنے فرائض سرانجام دینے پر ملتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جس راہ پر ہم اور آپ گامزن ہیں وہ صرف ہمیں روزی فراہم کرنے کا ذریعہ نہیں اس کے اصل مقاصد اور غرض و غایت کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔

وہ کام جو آپ کررہے ہیں اگر اس کو خُدا کی خشنودی اور عبادت کے طور پر کیا جائے تو یہ بڑے سے بڑے گناہ کا کفارہ بن جاتا ہے۔ اللہ عدل و احسان کا حکم دیتا ہے اور یہی انصاف کرنا تقویٰ کے قریب تر کر دیتا ہے۔ لہذا یہ عہدہ چاہے سول جج یا جوڈیشل مجسٹریٹ کے ابتدائی درجہ کا ہو یا چیف جسٹس کے انتہائی درجہ کا اسکو برتنے کے اصول ایک ہی ہیں۔ دولت اور جاہ و حشم کے حصول کی چاہ اصل مقصد کو دھندلا دیتا ہے۔

لہذا ن سے اجتناب میں ہی عافیت ہے۔ اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ اور یہ بات یقیناً یاد رکھنے کے لیے ہے کہ ''وہ نامِ نیک جسے خدا لوگوں میں جاری رکھتا ہے اس مال و دولت سے کہیں بہتر ہے جسے وہ بطور ترکہ اور میراث کے لوگوں میں چھوڑجائے گا۔دانائی کا یہ اصول کہ ''امیدوں کی کمی، نعمت پر خدا کا شکر، محارم سے اجتناب، بس یہی زہد ہے۔'' اگر ذہن میں رہے تو راہ سے بھٹکنے کے مواقع کم ہوجاتے ہیں۔

اور یہ اصول کہ'' صبر کو اپنا شعار بنا لو کیونکہ فتح و نصرت کا بھی یہی سب سے بڑا وسیلہ ہی'' صراطِ مستقیم سے ہٹنے نہیں دیتا ہے۔ گزرے ہوئے وقت کی بات ہوچکی اب حال میں پلٹ آئیے۔ وقت ابھی آپ کی مٹھی میں ہے۔ اسکو ضائع نہ ہونے دیجئے۔ جس تندہی سے آپ کام کر رہے ہیں اسکی تعریف نہ کرنا زیادتی ہوگی۔ لیکن اپنی کارگردگی میں بہتری لانے کا جذبہ اگر ماند پڑ جائے تو تمام محنت ضائع ہو جاتی ہے۔

لہٰذا آگے بڑھنے، بہتر طور پر کام کرنے اور علم کے حصول کے جذبے کو مصروفیات کی دھول میں گم نہ ہونے دیں۔اپنی محنت جاری رکھے روشن مستقبل کہیں دور نہیں۔ آپ کے بہتر اور درخشندہ مستقبل کے لیے ڈھیروں دعائیں۔ زندگی ر ہی تو یقیناً یہ آنکھیں آپ کو اعلیٰ مقام پر مزید بہتر صلاحیتوں کے ساتھ دیکھیں گی۔

متعلقہ عنوان :