کشمیریوں کی غالب اکثریت، پاکستان اور اقوام متحدہ نے آرٹیکل 370کو کبھی تسلیم نہیں کیا،سردار مسعود خان

بھارت جموںکشمیر میں نسل کشی اور جنگی جرائم کا ارتکاب کر رہا ہے، پاکستان کو سلامتی کونسل کے پاس جانا ہو گا اور اس عالمی پلیٹ فارم کا بار بار دروازہ کھٹکھٹانا ہو گا،قوام متحدہ کے چارٹر کے تحت سلامتی کونسل کی ذمہ داری ہے خطرات کے پیش نظر اپنا کردار ادا کرے،صدر آزاد کشمیر

منگل 17 ستمبر 2019 16:38

کشمیریوں کی غالب اکثریت، پاکستان اور اقوام متحدہ نے آرٹیکل 370کو کبھی ..
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 17 ستمبر2019ء) آزاد جموں وکشمیر کے صدر سردار مسعود خان نے کہا ہے کہ بھارت نے ہمیشہ دفعہ370کو کشمیر کی داخلی خودمختاری کی علامتی ضمانت کے طور پر پیش کیا لیکن کشمیریوں کی غالب اکثریت، پاکستان اور اقوام متحدہ نے اس آرٹیکل کو کبھی تسلیم نہیں کیا۔ بھارتی حکمرانوں نے شیخ عبد اللہ اور ان کی جماعت کی وفاداریاں خریدنے کے لئے اس آرٹیکل کو بھارتی آئین میں ڈالا تھا لیکن بعد میں مختلف ترامیم اور صدارتی احکامات کے ذریعے اس کی اصل روح کو ختم کر کے اسے خالی خول کی صورت میں باقی رہنے دیا۔

اس آرٹیکل کے تحت کشمیریوں کے علیحدہ آئین اور کشمیر کا علیحدہ جھنڈارکھنے کا اختیارتھا جسے 5اگست کو ختم کر کے مقبوضہ جموں وکشمیر کو مقبوضہ علاقے سے بھارت کی کالونی میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔

(جاری ہے)

یہ بات انہوں نے اسلام آباد میں ’’مقبوضہ کشمیر کا غیر قانونی ادغام، ہولو کاسٹ اور انسانی بحران‘‘ کے عنوان سے پاکستان ہائوس کے زیر اہتمام کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

کانفرنس سے کشمیر کمیٹی کے چیئرمین سید فخر امام، وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی چوہدری فواد حسین، برطانوی پارلیمنٹ کے رکن افضل خان، پیس اینڈ کلچرل کونسل کی چیئرپرسن مشال حسین ملک، کل جماعتی حریت کانفرنس کے رہنما الطاف احمد بھٹ اور پاکستان ہائوس کے ڈائریکٹر جنرل اطہر جاوید رانا نے بھی خطاب کیا۔ صدر سردار مسعود خان نے کہا کہ بھارت کی حکومت کی طرف سے آرٹیکل 370کو آئین کا حصہ بنانے کے باجود بین الاقوامی ماہرین قانون 1949سے لے کر 2019تک بھارت کو کشمیر میں ایک قابض اور کالونیل طاقت تصور کرتے ہیں۔

آرٹیکل 370اور کشمیر پر بھارت کے ناجائز قبضہ کے تاریخی پس منظر پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بھارت کا یہ دعویٰ رہا ہے کہ کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ کی طرف سے کشمیر کے بھارت کے ساتھ الحاق اور پاکستانی قبائلیوں کی طرف سے کشمیر پر حملہ کے بعد بھارت کے لئے فوج بھیجنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارتی قیادت نے بھارت کی آزادی سے پہلے جون 1947میں ہی کشمیر پر قبضہ کرنے کا منصوبہ بنا لیا تھا۔

جون1947سے اکتوبر 1947تک پنجاب اور کپورتھلہ کی ریاست سے سول کپڑوں میں ملبوس فوجیوں کو کشمیر کے اندر داخل کیا گیا، جموں کے قریب فوجوں کو مجتمع کیا گیا اور سرینگر ائیر پورٹ پر مواصلات اور وائرلیس کے نظام کو اپ گریڈ کر کے فوجی قبضہ کے لئے راہ ہموار کی گئی۔ جبکہ قبائلی مانسہرہ کے راستے مظفرآباد میں 22اکتوبر کو داخل ہوئے اور ان کے بارہمولہ پہنچنے سے پہلے ہی بھارت نے سرینگر ائیر پورٹ پر اپنی فوجیں اتار لی تھی۔

صدر آزادکشمیر نے کہا کہ قبائلی صرف 5دن کشمیر میں رہے جن کی موجودگی سے بھارت کی سلامتی کو کوئی خطرہ نہیں تھا۔ الحاق بھارت کی دستاویز پر اظہارخیال کرتے ہوئے صدر آزادکشمیر نے کہا کہ بھارت کے مہاتما گاندہی، جواہر لعل نہرو اور سردار پٹیل نے دبائو ڈال کر مہاراجہ ہری سنگھ سے معائدہ الحاق پر دستخط کرائے جبکہ کشمیری مسلمانوں کے اس وقت کے پاپولر رہنما شیخ محمد عبداللہ کی حمایت حاصل کرنے کے لئے انہیں جھانسہ دیا گیا کہ وہ کشمیر کے وزیر اعظم ہوں گے اور کشمیر کو بھارت کے اندر ایک نیم خودمختار حیثیت حاصل ہو گی۔

بھارتی حکمرانوں نے ایک طرف مہاراجہ کو دھوکہ دیا اور دوسرے طرف شیخ محمد عبدللہ کو فریب دے کر اپنے ساتھ ملا یا۔ انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کی قرارداد 122اور 92میں واضح کر دیا گیا ہے کہ بھارت کی حکومت یا کشمیر کی قانون ساز اسمبلی یکطرفہ طور پر کشمیریوں کے مستقبل کے حوالہ سے یکطرفہ طور پر کوئی قدم نہیں اٹھا سکتے۔ انہوں نے کہا کہ اکتوبر 1947میں کشمیر پر بھارت کا حملہ اور قبضہ اور پھر اگست2019میں دوبارہ حملہ کر کے ریاست کو مقبوضہ علاقے سے ایک کالونی میں تبدیل کرنے اور ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کرنے سمیت دیگر تمام اقدامات نہ صرف غیر قانونی اور غیر اخلاقی ہیں بلکہ بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے بھی منافی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بھارت ریاست جموں وکشمیر میں نسل کشی اور جنگی جرائم کا ارتکاب کر رہا ہے کیونکہ وہ صدیوں سے اپنی سرزمین پر آباد کشمیریوں کو اپنی زمین چھوڑ کر ہجرت کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے یہ تمام اقدامات بین الاقوامی اور ہیومینٹرین قانون کی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو بین الاقوامی عدالت انصاف میں جانے کے بجائے سلامتی کونسل کے پاس جانا ہو گا اور اس عالمی پلیٹ فارم کا بار بار دروازہ کھٹکھٹانا ہو گا۔

خود سلامتی کونسل کو بھی پاکستان اور کشمیریوں کی طرف سے کسی رسمی درخواست کا انتظار کرنے کے بجائے از خود نوٹس لے کر جنوبی ایشیا ء میں امن و سلامتی کو لاحق خطرات اور تباہ کن جنگ کے امکانات کو ختم کرنا ہو گا کیونکہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت یہ سلامتی کونسل کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان خطرات کے پیش نظر اپنا کردار ادا کرے۔