جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست سننے والا سپریم کورٹ کا بنچ تحلیل

جسٹس عمر بندیال نے نئے بنچ کی تشکیل کیلئے معاملہ چیف جسٹس کو بھجوا دیا ۹دو معزز ججز ممکنہ چیف جسٹس بنیں گے ان کا براہ راست مفاد ہے،ان کو کیس نہیں سننا چاہیے،عوام کا عدلیہ پر اعتماد ہونا ضروری ہے، انصاف ہوتا ہوا دکھائی دینا چاہیے،موکل کی ہدایت ہے عدلیہ کا تشخص خراب نہیں ہونا چاہیے،وکیل منیر اے ملک کے دلائل ہمارے ساتھی جج کے تحفظات افسوسناک ہیں،جسٹس اعجاز الاحسن، بنچ کا حصہ نہ بننے کیلئے پہلے ہی ذہین بنا لیا تھا،جسٹس طارق مسعود

منگل 17 ستمبر 2019 23:11

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 17 ستمبر2019ء) سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر دائر صدارتی ریفرنس کے خلاف دائر درخواست کی سماعت کرنے والا عدالت عظمیٰ کا 7 رکنی بینچ، ججز پر اعتراض کے بعد تحلیل ہوگیا اور نئے بینچ کی تشکیل کے لیے معاملہ چیف جسٹس آف پاکستان کو بھیج دیا گیا۔منگل کے روز عدالت عظمیٰ میں جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس مقبول باقر، جسٹس منظور احمد ملک، جسٹس طارق مسعود، جسٹس فیصل عرب، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل پر مشتمل 7 رکنی بینچ نے صدارتی ریفرنس کے خلاف درخواستوں پر سماعت کی۔

اس دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک عدالت میں پیش ہوئے اور دلائل دینے کا آغاز کیا۔سماعت کے آغاز پر جسٹس عمر عطا بندیال نے وکیل منیر اے ملک سے مکالمہ کیا کہ مجھے خوشی ہوئی کہ آپ عدالت آئے، جس پر جواب دیا گیا کہ چیف جسٹس کے تقریر کے موقع پر آپ اور جسٹس باقر موجود نہیں تھے۔

(جاری ہے)

منیر ملک نے کہا کہ بار کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، پوری قوم کی نظریں اس بینچ پر لگی ہوئی ہیں، اس درخواست میں کچھ حساس معاملات ہیں، جن پر بات ہوئی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل نے کہا کہ چیف جسٹس نے عدالتی سال کے آغاز کی تقریب سے خطاب کیا تھا اور کہا تھا کہ احتساب کا عمل غیر متوازن ہے اور پولیٹیکل انجینئرنگ کا تاثر مل رہا ہے۔وکیل نے کہا کہ احتساب کا عمل جوڈیشل انجینئرنگ کے لیے بھی استعمال ہو رہا ہے، میرے موکل کی ہدایت ہے کہ عدلیہ کا تشخص خراب نہیں ہونا چاہیے۔ اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے منیر اے ملک نے کہا کہ عدلیہ کی آزادی کے لیے سب کچھ قربان کردیں گے، ہم اہل ججز کی فل کورٹ بنانے کی استدعا کرتے ہیں، اس لیے سپریم جوڈیشل کونسل کے اراکین فل بینچ کا حصہ نہ ہوں۔

منیر اے ملک نے کہا کہ کوئی بھی ایسا جج جس کا ذاتی مفاد اس کیس سے نہ جڑا ہو اسے شامل کیا جائے، جن ججز کے مفادات اس سے جڑے ہیں وہ اس بینچ کا حصہ نہ ہوں۔ اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ کون سا جج متعصب ہوسکتا ہے ، جس پر منیر اے ملک نے کہا کہ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ کوئی بھی جج متعصب ہے،جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ میں یہ باور کرانا چاہتا ہوں کہ اس عدالت کا کوئی بھی جج متعصب نہیں۔

جس پر منیر اے ملک نے کہا کہ عوام کا عدلیہ پر اعتماد ہونا ضروری ہے، عدلیہ پر اگر اعتماد نہ ہو تو انصاف نہیں ہوسکتا، انصاف ہوتا ہوا دکھائی دینا چاہیے، جس پر کونسے عوامل سے جج کی جانبداری ثابت ہوتی ہے، اس عدالت کا ہر جج اپنی ذمہ داری آئین اور قانون کے مطابق ادا کرتا ہے۔جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ جج کی جانبداری کا کہہ کر آپ غلط جانب جا رہے ہیں، ہم تعصب یا جانبداری پر مزید دلائل سننا چاہتے ہیں۔

اس پر وکیل منیر اے ملک نے کہا کہ جن ججز نے چیف جسٹس بننا ہے، ان کی دلچسپی ہے، اس بینچ کے 2 ججز ممکنہ چیف جسٹس بنیں گیے، ان دو ججز کا براہ راست مفاد ہے، جس پر جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیے جسٹس خواجہ کا فیصلہ موجود ہے، اس فیصلے کے مطابق جج بطور جج کسی کو نہیں جانتا، آپ کو کسی جج کے رویے میں تعصب نظر آئے تو ہمیں بتائیں، کارروائی کے آغاز میں یہ اعتراض نہ اٹھائیں، اس اعتراض سے لوگوں کا عدلیہ پر اعتماد بھی مجروح ہوگا، بینچ سے الگ ہونا ایک جج کا اختیار ہے، جج کا ذاتی مفاد نہیں، ججز پر تعصب کا الزام عائد کرنا افواہوں کا دروازہ کھولنے کے مترادف ہے۔

منیر اے ملک نے کہا کہ بینچ میں موجود 2 مستقبل کے چیف جسٹس فل کورٹ کا حصہ نہیں بن سکتے، اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ 4 سال بعد چیف جسٹس بننے والے ججز پر تعصب کا الزام عائد نہیں کر سکتے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عدالتی فیصلے موجود ہیں کسی جج کو مقدمہ چھوڑنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا، اس پر منیر اے ملک نے کہا کہ ان ججز کے کندھوں پر ذمہ داری ہے وہ خود فیصلہ کریں، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ کا نقطہ ان ججز نے سن لیا ہے، وہ خود فیصلہ کر لیں گے۔

دوران سماعت جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیے کہ چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس آئے تو سینئر جج کونسل کا چئیرمین ہوتا ہے، جس پر وکیل نے کہا کہ ادارے کے تحفظ کے لیے یہ اعتراض اٹھایا گیا، ایک مقدمہ میں جسٹس اجمل نے مقدمہ سننے سے انکار کیا، اس پر جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ اس مقدمے میں جسٹس اجمل یہاں آئندہ کے چیف جسٹس تھے۔ اپنے دلائل کو جاری رکھتے ہوئے وکیل منیر اے ملک نے کہا کہ اگر کسی کا براہ راست مفاد ہے تو معاملہ کوڈ آف کنڈکٹ (ضابطہ اخلاق) کا ہے، اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ کسی کا ممکنہ چیف جسٹس بننا مستقبل قریب کی بات نہیں، یہ برسوں کی بات ہے، جس پر وکیل نے کہا کہ اعلیٰ عدلیہ کے جج کو تمام ممکنات سے پرہیز کرنا چاہیے۔

اس موقع پر سماعت میں کچھ دیر کا وقفہ ہوا، جس کے بعد سماعت ہوئی تو جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ کچھ ججز بینچ کا حصہ نہیں بننا چاہتے، ہم سوچ رہے کہ مقدمہ چیف جسٹس کو بھیج دیں۔بعد ازاں جسٹس طارق مسعود نے کہا کہ میں نے پہلے ہی ذہن بناچکے تھے کہ بینچ میں نہیں بیٹھنا۔اس کے ساتھ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ہم نے جو حلف اٹھایا ہے تمام حالات میں اس کا پاس رکھنا ہوتا ہے، ہمارے ساتھی جج کی جانب سے ہمارے بارے میں تحفظات افسوسناک ہیں۔

اس دوران سپریم کورٹ نے دونوں ججز جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس سردار طارق مسعود بینچ سے الگ ہوگئے، جس سے 7 رکنی بینچ تحلیل ہوگیا۔دونوں ججز کے بینچ سے علیحدہ ہونے پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ نئے بینچ کے لیے معاملہ چیف جسٹس کو بھیجتے ہوئے جلد سماعت کی بھی استدعا کر دی ۔