امریکا کی ہر 16 میں سے ایک خاتون کو انتہائی کم عمری میں ’ریپ‘ کا نشانہ بنا دیا جاتا ہے، ماہرین

منگل 17 ستمبر 2019 23:40

واشنگٹن(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 17 ستمبر2019ء) امریکا کی مختلف یونیورسٹیز اور صحت سے متعلق کام کرنے والی تنظیموں کے ماہرین نے اپنی ایک تحقیق میں کہا ہے کہ امریکا کی ہر 16 میں سے ایک خاتون کو انتہائی کم عمری میں ’ریپ‘ کا نشانہ بنا دیا جاتا ہے۔تحقیق کے دوران ماہرین نے امریکا بھر کی 13 ہزار سے زائد خواتین سے مختلف سوالات کیے، ان خواتین میں ہر رنگ، نسل اور مذہب کی خواتین شامل تھیں۔

نتائج کے مطابق مجموعی طور پر امریکا کی 5.6 فیصد خواتین کو زندگی کا پہلا جنسی تجربہ ’ریپ‘ کی صورت میں دیکھنا پڑتا ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ مجموعی طور پر 18 سے 44 برس کی امریکا کی 33 لاکھ خواتین کو ’ریپ‘ کا نشانہ بنایا گیا۔ماہرین کے مطابق جن خواتین کو ’ریپ‘ کا نشانہ بنایا جاتا ہے، ان میں سے زیادہ تر خواتین کی عمریں 16 برس سے کم ہوتی ہیں اور انہیں نشانہ بنانے والے مرد حضرات ان سے عمر میں کم سے کم 6 سال بڑے یا اس سے زائد عمر کے ہوتے ہیں۔

(جاری ہے)

رپورٹ میں بتایا گیا کہ زیادہ تر لڑکیوں اور خواتین نے تسلیم کیا کہ اگرچہ بعض اوقات وہ خود سے کئی سال بڑے شخص سے رضامندی کے تحت جنسی رجحانات پر گفتگو کرتی ہیں لیکن انہیں ان کی رضامندی کے بغیر ریپ کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ جنسی رجحانات پر گفتگو کرنے کے دوران خود سے زائد العمر مرد ساتھیوں کی جانب سے ’ریپ‘ کا نشانہ بننے والی لڑکیوں کو بڑھتی عمر کے ساتھ صحت کے مسائل ہوتے ہیں اور بعض مرتبہ یہ مسائل انتہائی پیچیدہ بن جاتے ہیں۔

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ اگرچہ ساڑھے 15 برس کی عمر کی لڑکیوں کو مرد حضرات ریپ کا نشانہ بناتے ہیں، تاہم ساڑھے 17 برس کی لڑکیاں باہمی رضامندی کے ساتھ بھی مرد حضرات سے تعلقات استوار کرتی ہیں لیکن ان کی تعداد بہت کم ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ سروے میں شامل 50 فیصد خواتین نے تسلیم کیا کہ انہیں نشانہ بنانے والے افراد ان سے دگنی عمر کے تھے۔سروے میں شامل خواتین نے بتایا کہ انہیں جنسی رجحانات پر بات کرنے کے دوران مرد ساتھیوں نے جہاں زبانی بدکلامی کا نشانہ بنایا تو وہیں ان کا جسمانی استحصال بھی کیا گیا۔سروے میں شامل 24 فیصد خواتین نے تسلیم کیا کہ انہیں ریپ اور جنسی تعلقات استوار کرنے کے نتیجے میں حمل ٹھہرا جو انہوں نے ضائع کروایا۔