پاکستان میں 20ہزار ہیکٹر رقبے پر بانس کی کاشت کی جا رہی ہے جس میں مزید اضافے کا امکان ہے، ماہرین زراعت

بدھ 18 ستمبر 2019 15:40

فیصل آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 18 ستمبر2019ء) پاکستان بانس کی پیداوار کے حوالے سے سازگار زمینی اور موسمی وسائل سے مالامال ہے جبکہ اس وقت دنیا کے 36 ملین ہیکٹررقبہ پر بانس کاشت کیا جاتا ہے جس کی 12سو سے زائد اقسام دستیاب ہیں نیز پاکستان میں 20ہزار ہیکٹر رقبے پر بانس کی کاشت کی جا رہی ہے جس میں آنے والے سالوں میں مزید اضافے کا امکان ہے۔

ماہرین زراعت نے بتایاکہ بانس کی پیداوار کو تجارتی پیمانے پر فروغ دے کر ملکی زرمبادلہ میں اضافے کے ساتھ ساتھ فرنیچر انڈسٹری میں کاروباری امکانات کو مزید بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں مشینی انقلاب کے ذریعے بانس انڈسٹری کو فروغ دے کر اس کے کاروباری امکانات کو مزید بڑھایا جاسکتا ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ بانس گھاس کے طور پر اگایا جاتا ہے اور اسے دنیا کے بلند ترین گھاس کی فصل کا اعزاز حاصل ہے۔

انہوں نے کہا کہ بانس کی لمبائی سو فٹ سے زائد تک لی جا سکتی ہے جبکہ بعض ممالک میں اسے بطور سالن بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مارکیٹنگ کا نظام نہ ہونے سے بانس کی فصل کو کسانوں میں زیادہ منافع کے لیے قبولیت کی حد تک متعارف نہیں کرایا جا سکا۔ انہوںنے کہا کہ خیبرپختونخوا میں اس وقت ملک کا اکلوتا فاریسٹری کالج قائم ہے جبکہ اس قسم کے اداروں کی تمام صوبوں میں ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ گذشتہ سال لیہ میں قائم کیے جانے ولے فاریسٹ کالج کو حکومت کی جانب سے عملی جامہ پہنانے کے لیے مزید توجہ کی ضرورت ہے جس سے نہ صرف پنجاب کی زرعی جامعات کے طلبا وطالبات کو فاریسٹری و رینج مینجمنٹ کے ساتھ ساتھ وائلڈ لائف کے شعبے میں تحقیق کے مواقع میسر آ سکیں گے بلکہ دیگر صوبوں کے لوگوں کو بھی اس سے فائدہ اٹھانے کا موقع ملے گا۔

انہوں نے کہا کہ بانس کو فرنیچر سازی کے ساتھ ساتھ پلپ اور پیپر انڈسٹری کے لیے خام مال کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بانس سے بنے ہوئے گھر موسمی اثرات سے محفوظ اور زلزلے سے کم نقصان کے حامل ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بانس کے ذریعے گارمنٹس، دستکاریاں، مشروبات ، چارکول، سائیکلیں، کاسمیٹکس اور پردے بنائے جاتے ہیں اور اس کو تجارتی سطح پر ان مقاصد کے لیے استعمال کر کے خطیر زرمبادلہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔