سانحہ بلدیہ کیس ، فیکٹری مالکان نے مرکزی ملزمان رحمان بھولا اور زبیر چریا کو شناخت کرلیا

․دبئی میں پاکستان سفارت خانے سے فیکٹری مالک ارشد بھائیلہ کا اسکائپ کے ذریعے بیان ریکارڈ کیا گیا،2ملزمان کو شناخت کرنے سے انکار منصور نے 2004 میں فیکٹری جوائن کی اور اسی سال ایم کیو ایم کا بھتہ بھی شروع ہوگیا، ایم کیو ایم سے معاملات منصور نے طے کرائے تھے،ارشد بھائیلہ کمیشن بنا تو ہم نے فرانسک کی ڈیمانڈ کی جسے مسترد کردیا گیا، اس وقت کے صوبائی وزیر صنعت و تجارت رؤف صدیقی نے ہمارے ہی خلاف مقدمہ درج کروایا سابق گورنر سندھ ڈاکٹرعشرت العباد خان نے کہا کہ اگر ہم ایم کیو ایم کے پلیٹ فارم سے متاثرین کو معاوضہ دیں تو تمام چیزیں ٹھیک ہوجائیں گی،عدالت میں وڈیو بیان ریکارڈ

جمعرات 19 ستمبر 2019 18:35

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 19 ستمبر2019ء) سانحہ بلدیہ کیس میں فیکٹری مالکان نے مرکزی ملزمان رحمان بھولا اور زبیر چریا کو شناخت کرلیا ہے جب کہ سنسنی خیز انکشافات بھی کیے ہیں۔کراچی کی انسداد دہشتگردی کی خصوصی عدالت میں سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس کی سماعت ہوئی۔ دبئی میں پاکستان سفارت خانے سے فیکٹری مالک ارشد بھائیلہ کا اسکائپ کے ذریعے بیان ریکارڈ کیا گیا۔

انہوں نے رحمان بھولا، زبیر چریا، رؤف صدیقی سمیت دیگر ملزمان کو شناخت کرلیا تاہم دو ملزمان کو شناخت نہیں کیا۔ارشد بھائیلہ نے سنسنی خیز انکشافات کرتے ہوئے بتایا کہ منصور نے 2004 میں فیکٹری جوائن کی اور اسی سال ایم کیو ایم کا بھتہ بھی شروع ہوگیا، ایم کیو ایم سے معاملات منصور نے طے کرائے تھے، ایم کیو ایم کو 15 سے 25 لاکھ روپے بھتہ جاتا تھا، منصورنے کہا اگر کراچی میں کام کرنا ہے تو ایم کیو ایم سے بنا کر رکھنی ہوگی، پھر حماد صدیقی کے کہنے پر2012 میں 25 کروڑ روپے مانگے گئے ، میں نے منصور سے کہا کہ ایک کروڑ روپے دے کر معاملات طے کرلو، رحمان بھولا نے کہا کہ یا تو 25 کروڑ دیں یا پھر پارٹنر شپ کریں۔

(جاری ہے)

ارشد بھائیلہ نے بتایا کہ 11 ستمبر 2012 کی شام کو فیکٹری سے نکل رہا تھا کہ اکانٹنٹ نے بتایا کہ آگ لگ گئی ہے، ڈیڑھ گھنٹے کے بعد فائر بریگیڈ پہنچی لیکن ان کے پاس پانی نہیں تھا اور آلات بھی نہیں تھے، میں نے فائر بریگیڈ والوں کو اپنے ہائیڈرنٹ سے پانی کی پیش کش کی جسے انہوں نے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اپنا کام کرنے دو۔ارشد بھائیلہ نے کہا کہ ہم تین سال تک متاثرین کو راشن دیتے رہے اور مالی امداد بھی کی، کمیشن بنا تو ہم نے فرانسک کی ڈیمانڈ کی جسے مسترد کردیا گیا، اس وقت کے صوبائی وزیر صنعت و تجارت رؤف صدیقی نے ہمارے ہی خلاف مقدمہ درج کروایا، ہم نے اپنے کیس کے لئے نعمت اللہ رندھاوا ایڈوکیٹ کی خدمات حاصل کی تھیں جو چند تاریخوں پر پیش ہوئے پھر انہیں بھی قتل کردیا گیا۔

ارشد بھائیلہ نے بیان دیا کہ جون 2013 میں ہمارے انکل کو سائٹ ایریا سے اغوا کرلیا گیا، سی پی ایل سی کے سابق چیف احمد چنائے نے ہمیں اغوا کاروں سے معاملات طے کرنے کا کہا، ہمارے انکل کو بھاری تاوان وصول کرنے کے بعد رہا گیا۔ارشد بھائیلہ نے کہا کہ 13 ستمبر کو گورنر عشرت العباد نے احمد چنائے کے ذریعے پیغام بھجوایا کہ ہم گورنر ہاس میں خود کو پولیس کے حوالے کردیں، گورنر نے کہا کہ اگر ہم ایم کیو ایم کے پلیٹ فارم سے متاثرین کو معاوضہ دیں تو تمام چیزیں ٹھیک ہوجائیں گی، معاملہ ٹھنڈا کرنا ہے تو ہر مرنے والے کے اہلخانہ کے لیئے 4 لاکھ روپے ایم کیو ایم کے پلیٹ فارم پر جمع کرادیں۔

ارشد بھائیلہ نے مزید بتایا کہ سابق ایم این اے سلمان مجاہد بلوچ نے جیل میں ملاقات کی اور کہا کہ مجھے وکیل کرلیں میں معاملہ ٹھنڈا کروادوں گا، ہم جب ضمانت پر رہا ہوئے تو ایم کیو ایم کی جانب سے ہم پر سخت دبا ڈالا گیا، ہم نے ایم کیو ایم کے ذریعے معاملات طے کرنے کا فیصلہ کیا اور ملزم علی قادری کے اکانٹ میں پانچ کروڑ 98 لاکھ روپے جمع کرائے۔واضح رہے کہ 11 ستمبر 2012 کو کراچی کے علاقے بلدیہ میں واقع فیکٹری علی انٹر پرائزز کو بھتہ نہ ملنے پر آگ لگادی گئی تھی جس کے نتیجے میں وہاں موجود 260 مزدور زندہ جل گئے تھے۔