سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف نے قومی احتساب ترمیمی بل2019 کو متفقہ طور پر منظورکر لیا

جمعرات 19 ستمبر 2019 22:50

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 19 ستمبر2019ء) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف نے قومی احتساب ترمیمی بل2019 کو متفقہ طور پر منظورکر لیا۔قائمہ کمیٹی کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر محمد جاوید عباسی کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہائوس میں منعقد ہوا ۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں آرٹیکل51 اور 106 میں ترمیم کے حوالے سے 2 ستمبر2019 کو سینیٹرز سجاد حسین طوری، احمد خان ، نصیب اللہ بازئی ، ثناء جمالی ، منظور احمد ، ڈاکٹر جہانزیب جمال دینی ، سرفراز احمد بگٹی ، ڈاکٹر اشوک کمار ، محمد اکرم ، سردار محمد یعقوب خان ناصر ، عثمان خان کاکڑ، مولانا عبدالغفور حیدری ، آغا شاہ زیب درانی،کلثوم پروین،سردار محمد شفیق ترین،میر کبیر احمد محمد شاہی،عابدہ محمد عظیم اور گل بشریٰ کی طرف سے متعارف کرایا گیا آئینی ترمیمی بل2019 ، آرٹیکل 1,51,59,106,175-A,198 اور 218 میں ترمیم کے حوالے سے سینیٹرز بہرہ مند خان تنگی ، روبینہ خالد ، امام دین شوقین ، سکندر میندرو ، اسلام دین شیخ ، گیان چند، کیشوبائی، مشتاق احمد او ر شیری رحمان کی طرف سے سینیٹ میں متعارف کرائے گئے آئینی ترمیمی بل2019 ، سینیٹر فاروق ایچ نائیک کی طرف سے 2 ستمبر2019 کو متعارف کرائے گئے قومی احتساب ترمیمی بل2019 ،سینیٹر میاںمحمد عتیق شیخ کی طرف سے متعارف کرائے گئے انسانی اعضاء کی پیوند کاری کے ترمیمی بل2018 ، سینیٹر محسن عزیز کے ریئل اسٹیٹ ریگولیشن اینڈ ڈویلپمنٹ بل2018 کے علاوہ سینیٹر مشاہد اللہ خان کی طرف سے 26 اپریل2019 کو سینیٹ اجلاس میں اٹھائے گئے معاملہ برائے اسٹیٹ لائف انشورنش کارپوریشن کے ملازمین کی فہرست اور مطالبات کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا ۔

(جاری ہے)

آرٹیکل 51اور 106میں ترمیم کے حوالے سے آئینی ترمیمی بل 2019کی تفصیل سے جائزہ لیا گیا ۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر محمد جاوید عباسی نے کہا کہ صوبوں کی آبادی کے لحاظ سے صوبائی اور قومی اسمبلی میں سیٹوں کا کوٹہ بنتا ہے۔ اس بل میں تجویز دی گئی ہے کہ صوبے کو رقبے کے لحاظ سے سیٹیوں کا کوٹہ مختص کیا جائے ۔ صوبہ بلوچستان کی صوبائی و قومی اسمبلی کی سیٹوں کو بڑھانے کی تجویز دی گئی ہے بہتر یہی تھا کہ پورے ملک کیلئے ایسا بل لایا جاتا ۔

سینیٹر سرفراز بگٹی نے کہا کہ صوبہ بلوچستان کی قومی اسمبلی میں نمائندگی انتہائی کم ہے جس کی وجہ سے ہمارے صوبے کے مسائل حل نہیں ہوتے اور ہمارے صوبے کی آواز کہیں سنائی نہیں دیتی ۔ صوبہ بلوچستان کے حالات فاٹا سے مختلف نہیں ہیں ۔ ہمارے حقوق ہمیں نہیں مل رہے ہماری صوبائی اور قومی اسمبلی میں سیٹیوں کی تعداد بڑھائی جائے تا کہ ہمارے مسائل حل ہو سکیں ۔

سینیٹر میر کیبر احمد محمد شاہی نے کہا کہ یہ آج کا مسئلہ نہیں ہے پہلے بھی کئی بار اٹھایا گیا ہے ۔ ہمارے صوبے کے ایک رکن قومی اسمبلی کا حلقہ تقریبا 30 ہزارمربع کلومیٹر پر محیط ہوتا ہے جبکہ صوبہ پنجاب کے رکن قومی اسمبلی کا حلقہ 357مربع کلومیٹرہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ ہمارے صوبے کے علاقے انتہائی پسماندہ اور غیر ترقیافتہ ہیں ۔ ہمارے صوبے کا ایک گائوں دوسرے گائوں سے کئی کلو میٹر دور ہوتا ہے ۔

سینیٹر کلثوم پروین نے کہا کہ ہمارے لوگوں کی حیثیت قومی اسمبلی میں نہ ہونے کے برابر ہے بہت کم تعداد ہونے کی وجہ سے ہمارے مسائل حل نہیں ہوتے۔ سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ اس بل میں کوتاہی ہے اس بل کو منظور کرنے کیلئے دیگر کئی آرٹیکلز کی شقوں میں تبدیلی کرنا پڑے گی اُن میں ترمیم کئے بغیر اس بل کو منظور نہیں کیا جا سکتا ۔ انہوں نے کہا کہ کمیٹی کے اجلاس میں انتہائی اہم بلوں کا جائزہ لیا جا رہا ہے اور وفاقی وزیر قانون کو کمیٹی اجلاس میں موجود ہونا چاہئے تھا تا کہ حکومت کا موقف سامنے آتا ۔

کمیٹی کو بتایاگیا کہ مردم شماری کے نتائج سرکاری طور پر پبلش نہیں کئے گئے ۔ سینیٹر محمد علی سیف نے کہا کہ کچھ چیزیں آئوٹ آف بکس بھی کرنا پڑتی ہیں اس بل کی خامیوں کو دور کر کے اختیار کرنا چاہئے ۔ ہمیں صوبوں کی تعداد کو بھی بڑھانا چاہئے یہ ملکی مفاد میں بہتر ہو گا ۔ سیکرٹری قانون نے کمیٹی کو بتایا کہ ملک کے تمام صوبوں کی آباد ی بڑھی ہیں وہ بھی سیٹیں بڑھانے کی بات کر رہے ہیں ۔

پالیسی پارلیمنٹ نے بنانی ہوتی ہے ہم اس کے مطابق کام کریں گے ۔ جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ وزارت آج پوری تیاری سے نہیں آئی ایسا حل نکالا جائے کہ ان صوبوں کے تحفظات بھی دور ہو سکیں بہتر یہی ہے کہ وزارت تین ہفتوں کے اندر حکومت کا موقف تحریری طور پر فراہم کرے یہ صوبوں کے متعلق معاملہ بھی ہے صوبوں سمیت متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لینا ہو گا۔

قائمہ کمیٹی نے آرٹیکل 1,51,59,106,175-A,198 اور 218 میں ترمیم کے حوالے سے بل کا تفصیل سے جائزہ لیا سینیٹر بہرہ مند خان تنگی نے کہا کہ 2015میں سینیٹ اراکین کی اکثریت نے ایک ایسا بل پاس کیا تھا اور موجودہ حکومت کے پارٹی منشور میں بھی جنوبی پنجاب صوبے کو شامل کیا گیا تھا مگر کئی ماہ گزرنے باوجود بھی حکومت اس پر پیش رفت نہ کر سکی اس لئے پاکستان پیپلز پارٹی اس کو متعارف کرا رہی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے 55لاکھ غریب افراد کراچی اور 70لاکھ اربن سندھ میں غربت کی وجہ سے کام کر رہے ہیں ۔اُن کی ضرورت جنوبی پنجاب میں پوری نہیں ہو رہی وسائل نہ ہونے کے برابر ہیں نیا صوبہ بنے سے اُن کی بہتری لائی جا سکتی ہے ۔سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ آرٹیکل239کی کلاز 4کے تحت کسی صوبے کے رقبے میں تبدیلی کیلئے پہلے صوبائی اسمبلی کی منظور ی حاصل کی جاتی ہے اگر قائمہ کمیٹی منظور کرتی ہے تو ہمیں دیکھنا ہو گا کہ جنوبی پنجاب بہاولپور اور باقی پنجاب کی کتنی آبادی ہے ۔

سیکرٹری قانون نے کہا کہ سینیٹر فاروق ایچ نائیک کی تائید کرتے ہیں ضلعوں کی حدود کا تعین بھی کرنا پڑے گا ۔آرٹیکل کے اندر تبدیلی کا فیصلہ پارلیمان نے کرنا ہے سینیٹر شیریں رحمان نے کہا کہ پنجاب اسمبلی کی اکثریت بھی جنوبی پنجاب صوبے کی منظور بھی دے چکی ہے اُس کی رپورٹ حاصل کی جائے ۔جس پر چیئرمین کمیٹی نے وزارت قانون کو آئندہ اجلاس میں تیاری کے ساتھ آنے اور مردم شماری اور دیگر متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کو بلانے کا فیصلہ کیا ۔

انہوں نے کہا کہ بہتر یہی ہے کہ باقی صوبوں کے لئے بھی جائزہ لیا جائے تو بہتر ہو گا۔ قائمہ کمیٹی نے سینیٹر فاروق ایچ نائیک کے قومی احتساب ترمیمی بل 2019کا تفصیل سے جائز لیا۔ سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے بل پر تفصیلی بریفنگ دی ۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر محمد جاوید عباسی نے کہا کہ سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے بہت اچھا کام کیا ہے ان کی اچھی کاوش کے مشکور ہیں۔

قائمہ کمیٹی نے بل کی متفقہ منظوری دے دی ۔چیئرمین کمیٹی سینیٹر محمد جاوید عباسی نے کہا کہ سینیٹر محسن عزیز کے ریئل اسٹیٹ ریگولیشن اینڈ ڈویلپمنٹ بل2018 میں سی ڈی اے کی سفارشات کو شامل کر لیا گیا ہے ۔قائمہ کمیٹی نے بل کی متفقہ طور پر منظور دے دی ۔ قائمہ کمیٹی نے سینیٹر مشاہد اللہ خان کی طرف سے 26 اپریل2019 کو سینیٹ اجلاس میں اٹھائے گئے معاملہ برائے اسٹیٹ لائف انشورنش کارپوریشن کے ملازمین کی فہرست اور مطالبات کے معاملے کا تفصیل سے جائزہ لیا ۔

قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ یہ معاملہ بورڈ کے سامنے ہے دھرنہ کرنے والے ملازمین نہیں تھے بلکہ کمیشن ایجنٹ تھے ۔ سیلز آفیسر 21ہزار تھے اُنہیں سیلز منیجر بنانا تھا 11ہزار مان گئے 10ہزار نے نکار کر دیا ان کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں ان کو قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں معاملہ پہلے فیز سے گزر چکا ہے اور اب بورڈ کے سامنے ہے جس پر قائمہ کمیٹی نے آئندہ اجلاس میں سیلز منیجر نہ بننے والے سیلز آفیسرز کے نمائندوں کو موقف بیان کرنے کیلئے طلب کر لیا اور معاملے کو تب تک موخر کر دیا ۔

سینیٹر مشاہد اللہ خان نے کہا کہ اسٹیٹ لائف کی نجکاری کی باتیں بھی ہو رہی ہیں ہو سکتا ہے کہ یہ سب کچھ اس لئے کیا گیا ہو چیئرمین کمیٹی نے معاملے کو جلد سے جلد حل کرنے کی ہدایت کر دی۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹرز فاروق ایچ نائیک ، عائشہ رضا فاروق، محمد علی خان سیف ، مصطفی نواز کھوکھر ، ثناء جمالی ، ستارہ ایاز، محسن عزیز، میاں محمد عتیق شیخ ، مشاہد اللہ، سجاد حسین طوری ، احمد خان ، نصیب اللہ بازئی ، منظور احمد ، سرفراز احمد بگٹی ، کلثوم پروین، میر کبیر احمد محمد شاہی، عابدہ محمد عظیم ، بہرہ مند خان تنگی ، روبینہ خالد، ڈاکٹر سکندر میندرو،کہدا بابر اور شیریں رحمان کے علاوہ سیکرٹری وزارت قانون و انصاف ،ایڈیشنل سیکرٹری وزارت قانون،جوائنٹ سیکرٹری وزارت داخلہ ، ڈی جی آپریشن نادرہ ، چیئرمین اسٹیٹ لائف انشورنس اور دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی ۔